اسلا م آ با د ( آن لائن)سال 2017 کا آخری سورج بھی ڈوب گیا، بین الاقوامی منظر نامے پر بہت سے ایسے واقعات رونما ہوئے جو عالمی سطح پر اپنے گہرے نقوش چھوڑ گئے۔ اور یہ کئی عشروں تک یاد رکھے جا ئیں گے ۔2017 کے آغاز میں ہی پوری دنیا پر اثرانداز ہونے والا ایک غیر معمولی واقعہ پیش آیا جس کے اثرات کئی دہائیوں تک محسوس کیے جائیں گے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے تمام ایگزٹ پول نتائج اور تجزیہ کاروں
کے دعوؤں کو غلط ثابت کرتے ہوئے حیران کن طور پر امریکی صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔امریکا میں گزشتہ برس نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے بزنس ٹائیکون کامیاب قرار پائے لیکن انہوں نے بطور امریکی صدر عہدے کا حلف 20 جنوری 2017 کو اٹھایا۔ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر بننے کے بعد دنیا سے دہشت گردی کے خاتمے کی آڑ میں اسلام کو نشانہ بنایا اور سب سے پہلے اسلامی ممالک پر سفری پابندیاں کیں۔ انہوں نے میکسیکو کے ساتھ اپنی سرحد پر دیوار بنانے کا اعلان بھی کیا اور شام کے فضائی اڈے پر بمباری کر کے متعدد طیارے تباہ بھی کیے۔امریکی صدر نے عالمی طاقتوں کے ایران کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے کو ختم کرنے کا اعلان کیا، پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر تحفظات کا اظہار کیا، پاکستان کے ساتھ تعلقات کا نئے سرے سے جائزہ لینے کی بات کی، شمالی کوریا کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ کیا اور مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے مسلمانوں اور عیسائیوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے کیے گئے سروے کے مطابق ٹرمپ کے ایک سالہ دور حکومت میں کرپشن میں اضافہ ہوا۔بین الاقوامی سطح پر پیش آنے والے واقعات میں برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کا بھی ایک ایسا واقعہ ہے جس سے مستقبل میں ناصرف برطانیہ بلکہ پورے یورپ کی سیاست، معیشت اور
معاشرت پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔جون 2016 میں برطانیہ میں ہونے والے ریفرنڈم میں عوام نے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں فیصلہ دیا تاہم برطانیہ کی یورپی یونین سے باقاعدہ علیحدگی کا عمل مارچ 2017 سے پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد شروع ہوا۔برطانوی وزیراعظم ٹریزامے کی جانب سے یورپی یونین کو باقاعدہ خط لکھ کر اس حوالے سے آگاہ کیا گیا جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ برطانیہ کی
یورپی یونین سے علیحدگی کا عمل مکمل ہونے میں تقریباً دو سے تین سال کا عرصہ درکار ہو گا۔یاد رہے کہ برطانیہ نے 1973 میں یورپی یونین میں شمولیت اختیار کی تھی اور برطانیہ کو یورپی یونین کا اہم حصہ تصور کیا جاتا تھا۔مقبوضہ کشمیر کی طرح میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کا معاملہ بھی بہت پرانا ہے لیکن اس معاملے نے ایک بار پھر اگست میں اس وقت سر اٹھایا جب اقوام متحدہ کے سابق
سیکرٹری جنرل کوفی عنان اور دیگر سماجی تنظیموں کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا کہ اگر روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے کا حل نہ نکالا گیا تو برما میں صورت حال مزید خراب ہو گی۔اس رپورٹ کے منظر عام پر آتے ہی میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے، برمی افواج نے حکومتی سرپرستی میں میں راخائن میں مسلمانوں کا قتل عام کیا، خواتین کی عصمت دری کی گئی اور گھروں کو
نذر آتش کر دیا گیا۔ اقوام متحدہ نے بھی اپنی رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی کہ میانمار میں ہونے والے مظالم حکومتی سرپرستی میں ہو رہے ہیں۔برمی افواج کے مظالم کے باعث روہنگیا مسلمان اپنا گھر بار چھوڑ کر بنگلا دیش ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اب تک تقریباً 6 لاکھ سے زائد روہنگیا بنگلادیش کے کیپموں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔مسئلہ فلسطین اور روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام
کی طرح مسئلہ کشمیر بھی رواں برس بھارتی ہٹ دھرمی اور بین الاقوامی کمیونٹی کی عدم توجہی کے باعث حل نہ ہو سکا۔ بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی انتظامیہ کی مدد سے حریت رہنماؤں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی لیکن کشمیری عوام اور حریت قیادت نے ہر بار کی طرح ایک بار پھر سبز ہلالی پرچم لہراتے ہوئے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا۔گزشتہ برس برطانیہ میں یورپی یونین سے
علیحدگی سے مثاثر ہو کر رواں برس کاتالونیا میں بھی اسپین سے علیحدگی کے لیے مہم چلائی گئی اور بعد ازاں اس حوالے سے ریفرنڈم بھی ہوا۔یکم اکتوبر کو کاتالونیا میں آزادی کے لیے ہونے والے ریفرنڈم میں 90 فیصد افراد نے اسپین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا اور پھر 27 اکتوبر کو اسپین کے اس خود مختار علاقے کی پارلیمنٹ نے بھی اسپین سے علیحدگی کی منظوری دیدی۔لیکن اسپین کی حکومت اور سپریم کورٹ
نے اس ریفرنڈم کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے بارسلونا میں واقع خود مختار علاقے کی پارلیمنٹ تحلیل کر کے کاتالونیا کا براہ راست کنٹرول حاصل کر لیا۔اسپین کے وزیراعظم ماریانو راجوئے نے کاتالونیا کے صدر کارلوس پوگیمویٹ اور ان کی کابینہ کے اراکین پر مشتمل پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کے بعد 21 دسمبر کو علاقائی انتخابات کرانے کا اعلان بھی کیا۔سعودی حکومت کی جانب سے کرپشن کے الزام میں شہزادوں اور
موجودہ و سابق وزراء4 کی گرفتاری کی خبر نے بین الاقوامی میڈیا خصوصاً عرب دنیا میں ہلچل مچا دی۔نومبر میں سعودی حکومت نے 11 سعودی شہزادوں سمیت 38 افراد کو کرپشن اور منی لانڈرنگ کے الزامات پر گرفتار کیا، گرفتار افراد میں 38 موجودہ و سابق وزراء4 اور دنیا کے ارب پتی افراد میں شامل سعودی شہزادے الولید بن طلال بھی شامل تھے۔سعودی شہزادے الولید بن طلال کی خبر کے بعد سعودی اسٹاک مارکیٹ میں
مندی بھی دیکھنے میں آئی۔خیال رہے کہ ولید بن طلال سفر کے لئے 50 ارب روپے کا ذاتی طیارہ استعمال کرتے ہیں اور ان کے تین ذاتی محل ہیں جن میں سے ایک محل میں 317 کمرے اور اعلیٰ معیار کا 15000 ٹن اطالوی سنگ مرمر استعمال کیا گیا ہے۔بعدازاں سعودی حکومت نے متعدد شہزادوں کو اربوں ڈالر کے معاہدے کے بعد رہا کر دیا۔بین الاقوامی شدت پسند تنظیم داعش اپنی دہشت زدہ کارروائیوں کی دنیا بھر میں مشہور ہے
اور اس کی بنیاد ابومصعب الزرقاوی نے عراق میں التوحید الجہاد کے نام سے رکھی تھی، شدت پسند تنظیم پر عروج و زوال کے متعدد دور آئے اور مختلف ناموں اور قائدین کی تبدیلی کے بعد یہ تنظیم آج کل داعش کے نام سے جانی جاتی ہے جس کے امیر ابراہیم عواد جنہیں دنیا ابو بکر البغدادی کے نام سے جانتی ہے۔ابو بکر البغدادی نے 2014 میں عراق و شام میں خلافت کا اعلان کیا اور شدت پسند تنظیم نے بہت ہی کم عرصے
میں دونوں ممالک کے بڑے حصے اور وسائل پر قبضہ جما لیا۔امریکی، روسی، ایرانی، شامی اور عراقی فورسز مسلسل کارروائیوں کے باعث داعش پسپائی کا شکار ہونے لگی اور پھر نومبر 2017 میں پہلے ایران اور پھر روس و عراق نے داعش کے خلاف فتح کا اعلان کیا تاہم دہشت گرد تنظیم اب بھی تخریبی کارروائیوں میں مصروف عمل ہے تاہم اس کی طاقت میں کمی ضرور دیکھی گئی ہے۔دنیا پر گہرے نقوش چھوڑ جانے والے
واقعات میں دو انتہائی افسوسناک اور سفاکانہ واقعات براعظم افریقا کے اہم ممالک صومالیہ اور مصر میں پیش آئے۔ ان دونوں واقعات میں 600 سے زائد لوگ ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔اکتوبر کے مہینے میں صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو کے مصروف ترین علاقے میں ایک ہوٹل کے قریب ہونے والے ٹرک دھماکے میں 300 سے زائد افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔اس حملے کے فوراً بعد صومالیہ کے
وزیر دفاع اور آرمی چیف نے بغیر کسی وضاحت کے اپنے عہدوں سے استعفے دیکر ایک اچھی مثال قائم کی۔موغادیشو میں ہونے والے حملے کے تقریباً ایک ماہ بعد مصر کے صوبے سینا میں صوفی مسلک سے تعلق رکھنے والی مسجد میں نماز جمعہ کے دوران ہونے والے دھماکے اور فائرنگ کے نتیجے میں 300 سے زائد افراد جاں بحق جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے۔ اس حملے کو مصر کی تاریخ کا بدترین حملہ قرار دیا جاتا ہے۔
مغربی ممالک کے فوجی اتحاد نیٹو کی طرز پر اسلامی ممالک نے بھی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اسلامی عسکری اتحاد بنانے کا اعلان کیا۔دسمبر 2015 میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سعودی عرب کی سربراہی میں مسلم ممالک کی اتحادی افواج کی بنیاد رکھی گئی لیکن کچھ ممالک کے تحفظات اور خدشات کے باعث اس ملٹری اتحاد کا پہلا باقاعدہ اجلاس نومبر 2017 میں ریاض میں ہوا۔اسلامی اتحادی افواج
کے سربراہ پاک فوج کے سابق چیف جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف ہیں اور اس فوجی اتحاد کے ٹی او آرز ابھی طے ہونا باقی ہیں۔ابتدائی طور پر اس فوجی اتحاد میں 34 ممالک نے شمولیت اختیار کی تھی لیکن پھر مزید ممالک کے شامل ہونے کے بعد اس ان ممالک کی تعداد 41 تک پہنچ چکی ہے۔افریقی ملک زمبابوے کی فوج نے 4 دہائیوں سے ملکی اقتدار پر قابض رابرٹ موگابے کی حکومت کا خاتمہ کیا جس کے مستقبل قریب میں
افریقی ملک کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔زمبابوے کے صدر رابرٹ موگابے نے 21 نومبر 2017 کو شدید عوامی اور فوجی دباؤ کے بعد اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا جس کے ساتھ ہی ان کی 37 سالہ حکمرانی کا خاتمہ ہو گیا۔صدر موگابے کی جانب سے نائب صدر ایمرسن مننگاوا کی برطرفی کے بعد ملک میں سیاسی بحران پیدا ہوا تھا جس کے بعد فوج نے 15 نومبر کو اہم سرکاری اداروں کا کنٹرول سنبھالتے ہوئے
صدر موگابے کو ان کی رہائش گاہ تک محدود کر دیا تھا۔ایمرسن مننگاوا کو 93 سالہ صدر موگابے کے بعد صدارت کا ممکنہ امیدوار سمجھا جاتا تھا تاہم موگابے اپنی اہلیہ کے اقتدار میں آنے کی راہ ہموار کرنا چاہتے تھے۔93 سالہ صدر موگابے نے 1970 میں برطانوی تسلط سے ا?زادی کے لئے جدوجہد شروع کی اور 1980 میں زمبابوے کو آزادی ملنے کے بعد انہوں نے اقتدار سنبھالا تھا۔صدر موگابے کے استعفے کے بعد
نائب صدر ایمرسن مننگاوا نے زمبابوے کے صدر کی حیثیت سے عہدہ سنھبالتے ہی اعلی عسکری شخصیات کو اہم عہدے تفویض کر دیے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 6 دسمبر کو مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے اپنا سفارتخانہ وہاں منتقل کرنے کا اعلان کیا۔امریکی صدر کے اعلان کے بعد ناصرف مسلم دنیا میں شدید ردعمل دیکھنے میں آیا بلکہ فرانس، برطانیہ اور جاپان سمیت خود امریکا کے
قریبی اتحادی ممالک نے بھی اس فیصلے کو غیر منصفانہ قرار دیا اور اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری نے اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔اس فیصلے کے بعد اسلامی تعاون تنظیم کا ہنگامی سربراہ اجلاس استنبول میں منعقد ہوا جس میں امریکی فیصلے کی شدید مذمت کی گئی اور ڈونلڈ ٹرمپ سے فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا۔ترک صدر رجب طیب اردوان نے بھی امریکی ردعمل میں
مقبوضہ بیت المقدس کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے ملک کا سفارتخانہ وہاں منتقل کرنے کا اعلان کیا۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مصر کی جانب سے امریکا سے فیصلہ واپس لینے کے لیے قرارداد پیش کی گئی جس کے حق میں سلامتی کونسل کے 14 ممبر ممالک نے ووٹ ڈالے تاہم امریکا نے اس قرارداد کو ویٹو کردیا اور اس قرارداد کے حق میں ووٹ ڈالنے والے ممالک کو دھمکیاں بھی دی گئیں۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں امریکی فیصلے کے خلاف قرارداد پیش کی گئی جسے 193 میں سے 128 ممالک نے بھاری اکثریت کے ساتھ منظور کیا جب کہ صرف 9 ممالک نے اس کی مخالفت کی۔پاناما لیکس کے تہلکہ خیز انکشافات کے بعد صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم آئی سی آئی جے نے رواں برس نومبر میں پیراڈائز لیکس کے نام سے ایک کروڑ 34 لاکھ سے زائد دستاویزات جاری کیں۔ ان دستاویزات میں 47 ممالک
کی 127 اہم شخصیات کے نام آف شور کمپنیاں بنانے والوں میں شامل ہیں۔آف شور کمپنیاں بنانے والوں میں پاکستان کے سابق وزیراعظم شوکت عزیز، ملکہ برطانیہ، اردن کی ملکہ نور، امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن، گلوکارہ میڈونا، کینیڈین وزیراعظم جسٹس ٹروڈو کے مشیراسٹیفن برونفمین، کوفی عنان کے بیٹے اور سابق امریکی جنرل ویزلے کلارک کے نام سامنے آئے۔اس کے علاوہ قطر کے سابق وزیراعظم
حماد بن جاسم الثانی، مائیکروسافٹ کے شریک بانی پال ایلن اور ای بے کے بانی پائری اومیڈیار کے نام بھی پیراڈائز لیکس میں سامنے آئے۔اس تحقیقاتی کاوش میں 67 ممالک کے 381 صحافیوں نے حصہ لیا جن میں آئی سی آئی جے کے رکن اور دی نیوز کے سینیئر رپورٹر عمر چیمہ بھی شامل ہیں۔ پاکستان میں صرف جنگ گروپ انٹرنینشل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلزم سے وابستہ ہے۔2017 میں عرب دنیا میں عالمی سطح
پر اثرانداز ہونے والے بڑے واقعات میں سعودی حکومت کی اپنی پالیسی میں تبدیلی بھی ہے۔سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے جون میں ولی عہد شہزادہ بن نائف کو برطرف کر کے اپنے بیٹے شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز کو اپنا نائب مقرر کیا۔ شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز کے ولی عہد نامزد ہونے کے بعد سعودی حکومت کی جانب سے کئی اعتدال پسند پالیسیاں اپنائی جا چکی ہیں۔سعودی عرب میں خواتین کے گاڑی
چلانے پر پابندی عائد تھی لیکن ستمبر کے مہینے میں شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے سعودی تاریخ میں پہلی بار خواتین کو ڈرائیونگ چلانے اجازت فراہم کی۔اکتوبر کے مہینے میں سعودی خواتین کو کھیلوں کے میدان میں جانے کی اجازت بھی مل گئی تاہم اس کا اطلاق 2018 سے ہو گا۔ایک ماہ بعد یعنی نومبر کے مہینے میں سعودی عرب کے کمیشن برائے سیاحت و قومی ورثہ کے سربراہ شہزادہ سلطان بن سلمان
نے 2018 سے غیر ملکیوں کو سیاحتی ویزے جاری کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد تیل پر معیشت کا انحصار کم سے کم کرنا ہے۔سعودی حکومت نے اعتدال پسندی کی جانب مزید ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے 35 سال میں پہلی بار سینما گھروں پر عائد پابندی اٹھا لی۔سعودی حکومت کی جانب سے ان فیصلوں کو ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے سماجی اصلاحات سے متعلق فیصلوں کا تسلسل قرار دیا جا رہا ہے۔
مشرقی وسطیٰ کی صورت حال گزشتہ برس کا معاملہ تو نہیں لیکن فلسطین کے عوام 2017 میں بھی اپنی آزادی کے لیے صیہونی فورسز کے خلاف سڑکوں، گلیوں، چوراہوں اور دنیا کے ہر حصے میں احتجاج کرتے نظر آئے۔اسی طرح یمن میں خانہ جنگی کا آغاز 2015 میں حوثی باغیوں کی جانب سے منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد ہوا لیکن رواں برس بھی سعودی عرب کی سربراہی میں بننے والے 5 رکنی عرب اتحاد
اور حوثی باغیوں کے درمیان کشیدگی جاری رہی اور باغیوں نے نومبر میں یمن کے سابق صدر علی عبداللہ صالح کے گھر پر حملہ کر کے انہیں ہلاک کر دیا۔عراق اور شام میں داعش کے خاتمے کے اعلان کے باوجود اب بھی وہاں شدت پسند گروہوں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن جاری ہے جب کہ ایران اور سعودی عرب کے اختلافات بھی گزشتہ برس خبروں میں زیر بحث رہے۔اس کے علاوہ سعودی عرب، بحرین اور
متحدہ عرب امارات نے شدت پسندوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے قطر سے اپنے سفارتی تعلقات منقطع کیے۔ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر بننے کے بعد جہاں امریکا نے بہت سے غیر معمولی اقدامات اٹھائے وہاں شمالی کوریا کے خلاف بھی سخت پابندیاں عائد کیں لیکن اس کے باوجود شمالی کوریا اپنے جوہری منصوبے کی تکمیل سے پیچھے نہ ہٹا اور امریکی پابندیوں کے ردعمل میں میزائل تجربات کرتا رہا۔
شمالی کوریا کی جانب سے گزشتہ برس ہائیڈروجن بم کا تجربہ بھی کیا گیا اور اس تجربے کے باعث جاپان، جنوبی کوریا اور خود شمالی کوریا میں زلزلے کے جھٹکے بھی محسوس کیے گئے۔ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے شمالی کوریا کو دنیا کے نقشے سے مٹانے کی دھمکی دی گئی تو کم جانگ اْن کی جانب سے کہا گیا کہ پورا امریکا شمالی کوریا کے میزائلوں کے ہدف میں ہے۔ دونوں رہنماؤں کی جانب سے ایک دوسرے کو برے القابات سے بھی پکارا گیا جب کہ امریکی صدر نے شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرات کو وقت کا ضیاع بھی قرار دیا۔