بر سلز (آن لائن)یورپ کی سب سے بڑی عدالت نے شامینژاد ایک شخص کو، جس نے اپنی بیوی کو شرعی عدالت کے ذریعے طلاق دی تھی، حکم دیا ہے کہ ان کی طلاق کی جرمنی میں، جہاں وہ اب رہتے ہیں، کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔اس معاملے میں یورپی عدالت انصاف کا یہ پہلا فیصلہ ہے۔یورپی عدالت انصاف کا کہنا ہے کہ یورپی یونینکے رکن ممالک کو ریاستی عدالتوں سے باہر دی گئی طلاق کو تسلیم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔بعض مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ مرد ایک ہی وقت میں تین مرتبہ طلاق کہہ کر بیوی کو چھوڑ سکتے ہیں۔
مذکورہ جوڑے نے 1999 میں شام کے شہر حمص میں شادی کی تھی۔ بعد میں وہ جرمنی چلے گئے۔ دونوں شام اور جرمنی کی دوہری شہریت رکھتے ہیں۔2013 میں شوہر نے شام کی ایک عدالت میں اپنے نمائندے کے ذریعے طلاق بھجوا دی تھی۔ یورپی عدالتِ انصاف نے اسے ‘نجی طلاق’ قرار دیا۔بیوی نے اس تحریری طلاق کو تسلیم کر لیا تھا، مگر جب شوہر نے جرمنی میں طلاق کے اندراج کی درخواست دی تو بیوی نے اسے چیلنج کر دیا۔جرمن عدالت نے یہ معاملہ غور کے لیے یورپی عدالتِ انصاف کو بھیج دیا تاکہ وہ یورپی اتحاد کے قوانین کی روشنی میں اس کا جائزہ لے۔یورپی عدالت نے قرار دیا ہے کہ کسی دوسرے ملک میں دی گئی طلاق کو خود بخود یورپ میں قانونی حیثیت حاصل نہیں ہو جاتی۔عدالت کے مطابق کسی شرعی عدالت میں یکطرفہ طور پر دی گئی طلاق یورپی ضوابط سے مطابقت نہیں رکھتی لہذا یہ مقدمہ جرمنی میں ملکی قوانین کے مطابق نمٹایا جائے۔اس معاملے کا فیصلہ اب میونخ کی مقامی عدالت میں کیا جائے گا۔کئی مسلم سکالر ایک ہی وقت میں تین طلاقوں کو ایک ہی قرار دیتے ہیں اور طلاق کے بارے میں قرآن میں دیے ہوئے طریقے کو اپنانے پر زور دیتے ہیں۔