اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) صوبائی دارالحکومت پشاور میں 12 ربیع الاول بروز جمعہ کو ایگریکلچر ڈائریکٹوریٹ پر حملے کیا گیا جس میں 11 افراد شہید ہوگئے، بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق شدت پسندوں کی طرف سے جاری کی گئی وڈیو سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ حملے کے منصوبہ سازوں نے خودکش حملہ آوروں کو ہدف کے بارے میں صحیح نہیں بتایا تھا، شدت پسندایگریکلچر ڈائریکٹوریٹ کو آئی ایس آئی کا دفتر سمجھ کر حملہ کرنے آئے تھے‘
بی بی سی کا اپنی رپورٹ میں مزید کہنا ہے کہ حملے کی ذمہ داری کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی اور ان کی طرف سے اس واقعے کی ایک ویڈیو بھیجی گئی جو دو منٹ پر مشتمل ہے اس میں حملہ آور طلبہ پر فائرنگ کر رہے ہیں اس کے علاوہ ویڈیو میں بعض طالب علموں کو بھاگتے ہوئے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔رپورٹ کے مطابق حملہ آور فائرنگ کرتے ہوئے طلبا کے ایک کمرے میں داخل ہوتے ہیں جہاں ایک حملہ آور اور طالب علم کے درمیان پشتو زبان میں مختصر بات بھی ہوتی ہے، حملہ آور طالب علم سے کہتا ہے کہ ’آپ کو کچھ نہیں کہوں گا لیکن یہ بتاؤ کہ کیا یہ خفیہ ادارے آئی ایس آئی کا مرکز ہے؟ خوف کے عالم میں جواب دیتے ہوئے طالب علم کے منہ سے ہاں’ نکلتا ہے تاہم یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ جس طالب علم سے حملہ آور کی بات ہوئی اسے بعد چھوڑ دیا گیا یا نہیں۔کالعدم تنظیم کے ترجمان عمر خراسانی کی طرف سے جاری کردہ بیان میں بھی کہا گیا ہے کہ حملہ خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے مرکز پر کیا گیا ہے لیکن حقیقت میں وہ زرعی تربیتی ادارے میں واقع طلبہ کا ایک ہاسٹل ہے جہاں حملے کے وقت 30 کے قریب طلبہ موجود تھے۔ بی بی سی رپورٹ کے مطابق سرکاری اہلکاروں کا کہنا ہے کہ ویڈیو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ منصوبہ سازوں نے حملہ آواروں کو دھوکہ میں رکھا اور شاید انھیں بتایا گیا تھا کہ وہ انھیں خفیہ ادارے کے مرکز کو نشانہ بنانے کے لیے بھیج رہے ہیں
لیکن درحقیقت وہاں خفیہ ادارے کا کوئی مرکز یا دفتر موجود نہیں تھا۔دوسری طرف زرعی تربیتی ادارے کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ چھ ماہ پہلے ان کی طرف سے صوبائی حکومت کو دو خطوط بھیجے گئے تھے جس میں ادارے کو سکیورٹی فراہم کرنے کی درخواست کی گئی تھی لیکن حکومت کی طرف سے اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ان کا کہنا تھا کہ ادارے کی حفاظت کے لیے بوڑھے چوکیداروں کو تعینات کیا گیا ہے جن کی نہ صرف عمریں زیادہ ہیں بلکہ ان کے پاس حفاظت کے لیے موجود اسلحہ بھی پرانا ہے جس میں بیشتر بندوقیں کام نہیں کرتیں۔ ان کے مطابق ادارے کی عمارت میں جو سی سی ٹی وی کیمرے لگائے گئے ہیں ان میں زیادہ تر یا تو خراب ہیں یا ان میں کئی دنوں تک ریکارڈنگ اور ڈیٹا جمع کرنے کی سہولت موجود نہیں ہے، واضح رہے کہ خیبر روڈ پشاور پر واقع زرعی تربیتی مرکز ایک بڑی عمارت پر مشتمل ہے جہاں تربیتی ادارے اور ہاسٹلوں کے علاوہ گیارہ دیگر سرکاری محکموں کے دفاتر بھی واقع ہیں۔ اس عمارت سے متصل مشہور طبی ادارے خیبر ٹیچنگ ہسپتال کی نرسوں اور ڈاکٹروں کے ہاسٹلز ہیں۔