اسلام آباد(ویب ڈیسک) لاہور کی رہائشی ثمینہ بی بی اپنے خاوند کی محدود تنخواہ میں گھر چلانے کی کوشش تو کر رہی ہیں لیکن پانچ ہزار روپے ماہانہ میں وہ آخر چار بچوں کو کیسے معیاری اور غذائیت سے بھرپور کھانا مہیا کریں۔ جب ثمینہ بی بی پرچون کی دکان پر آٹا اور گھی لینے جاتی ہیں تو معیار نہیں، سب سے سستی چیز کی تلاش
ہوتی ہے۔ انھیں اس بات کا احساس ہے کہ یہ اشیا بجٹ کے مطابق تو ہیں لیکن مضرِ صحت بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے ‘جو کماتے ہیں اس میں خرچہ بھی پورا نہیں ہوتا، 40 روپے کلو آٹا ملتا ہے اور 150 روپے کلو گھی ملتا ہے۔ یہ آٹا اور گھی اچھا نہیں ہوتا، گھی لگا کر بچوں کو روٹی دیں تو بچے بیمار ہو جاتے ہیں۔ اچھے برانڈ کی چیزیں بہت مہنگی ہیں اور ہماری جیب سے باہر’۔ یہ بھی پڑھیے بھوک کا شکار ملکوں میں پاکستان گیارہویں نمبر پر’ہر چوتھا پاکستانی ذیابیطس کا شکار ہے‘ غذائی قلت کا شکار افراد کی تعداد اقوام متحدہ کے ادارے برائے خوراک و زراعت کے مطابق پاکستان میں تین کروڑ 75 لاکھ افراد غذائی قلت کا شکار ہیں۔ اس ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے برطانیہ کے تعاون سے پاکستان فوڈ فارٹیفیکیشن پروگرام یا غذا کی قلت دور کرنے کی مہم کا آغاز کیا گیا ہے جس کے تحت کھانے کے تیل، گھی اور آٹے میں غذائی جزو شامل کیے جائیں گے۔ رطانوی ادارہ برائے عالمی ترقی نے اس پانچ سالہ پروگرام کا آغاز صوبہ پنجاب سے کیا ہے۔ چار کروڑ اسی لاکھ پاؤنڈ کے اس منصوبے کا بنیادی مقصد غذا میں ان اجزا کو شامل کرنا ہے جن کی پاکستانی عوام میں کمی ہے۔ اس پروگرام کے ٹیکنیکل ڈائریکٹر، ڈاکٹر توصیف اختر نے بی بی سی کو بتایا کہ غذائی قلت سے نمٹنے کا سب سے مؤثر حل فوڈ فارٹیفیکیشن ہے۔ انھوں نے بتایا ‘اس پراجیکٹ میں ہم خوردنی تیل کی وٹامن اے اور ڈی سے فارٹیفیکیشن کریں گے اور گندم کے آٹے کی آئرن،
فولک ایسڈ، وٹامن بی 12 اور زنک سے۔ اور یہ وہ تمام مائکرو نیوٹرینٹس (غدائی اجزا) ہیں جن کی کمی پاکستانی آبادی میں پائی جاتی ہے۔ ’نیشنل سروے 2011 میں یہ واضح ہو گیا ہے کہ عوام میں ان اجزا کی کمی ہے’۔ نیشنل نیوٹریشن سروے 2011 کے مطابق پاکستان کا شمار ان مملک میں ہوتا ہے جہاں بدترین غذائی قلت ہے جس کے باعث ملک کی سماجی اور معاشی ترقی کو بھی خطرہ ہے۔ اس سروے کے مطابق پانچ سال تک کی عمر کے 64 فیصد بچے آئرن کی کمی کا شکار ہیں، جبکہ 54 فیصد بچوں میں وٹامن اے اور 40 فیصد میں وٹامن ڈی کی کمی ہے۔ یہی کمی پاکستانی خواتین میں بھی ہے۔ 51 فیصد پاکستانی خواتین انیمیا کا شکار ہیں جبکہ 37 فیصد حاملہ خواتین میں آئرن کی کمی، 46 فیصد میں وٹامن اے اور 69 فیصد میں وٹامن ڈی کی کمی پائی جاتی ہے۔ پاکستان میں غذائیت کی کمی کے ساتھ غیر معیاری اشیائے خوردونوش کی فروخت بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ایسے میں بچوں اور خواتین میں غذائیت کی کمی پوری کرنے کے لیے فوڈ فارٹیفیکیشن پروگرام جیسے اقدام کی ضرورت تو ہے لیکن ایک ایسا ملک جس کی زیادہ تر آبادی انتہائی غربت کا شکار ہے اور معیاری گھی اور آٹا بھی نہیں خرید سکتی، کیا وہاں ایسے پروگرامز مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں؟ بی بی سی نے جب پنجاب کے وزیر خوراک بلال یاسین سے پوچھا کہ فوڈ فارٹیفیکیشن پروگرام شروع ہونے سے قبل کیا صوبے میں غیر معیاری خوردنی تیل، گھی اور آٹا
بیچنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن نہیں ہونا چاہیے، تو ان کا کہنا تھا کہ جلد ہی یہ آپریشن شروع کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا ‘خوردنی تیل اور گھی کے پروڈکشن پلانٹس پر ہم کریک ڈاؤن کریں گے۔ ان کے سیل پوائنٹ تو ہزاروں میں ہیں، اس لیے ہمارا فوکس ہے فیکٹریاں، وہ تو ہزاروں میں نہیں ہیں۔ وہ بہت زیادہ بھی ہوں تو 100 کے قریب ہی ہوں گی۔ ان کو پروڈکشن کے ضابطہ اخلاق میں لانے کی کوشش کریں گے، نہیں تو ان کو وہیں سیل کر کے بند کر دیں گے’۔ صوبے میں غیر معیاری آٹے کی فروخت سے انکار کرتے ہوئے وزیر خوراک نے کہا کہ ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ پنجاب حکومت خود گندم سپلائی کرتی ہے، البتہ گھی اور خوردنی تیل کی قیمتیں زیادہ ہیں کیونکہ برانڈ پرائس ایک گلوبل ٹرینڈ ہے۔ بلال یاسین کا کہنا تھا ‘ہم یقین دلاتے ہیں کہ ہمارے پاس بہترین معیار کی گندم ہے جس کو پیس کر آٹا مارکیٹ میں آتا ہے۔ آئل اور گھی کی بات کریں تو واقعی یہ درست ہے کہ چند برانڈ ہیں جنہوں نے اپنی قیمتیں بہت زیادہ رکھی ہوئی ہیں اور دنیا بھر میں ایسا ہوتا ہے۔ جو برانڈ کا نام ہے وہ بکتا ہے۔ البتہ گھی کے نام پر جو کمپنیاں کیمیکل بیچ رہی ہیں ان پر آنے والے دنوں میں کریک ڈاؤن کریں گے اور اگر پنجاب کی حد تک ان پر پابندی لگانی پڑی تو وہ بھی کریں گے’۔ ثمینہ بی بی اور پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والے ان
جیسے ہزاروں افراد کا مطالبہ ہے کہ حکومت کو کروڑوں روپے کی لاگت سے گھی، خوردنی تیل اور آٹے میں غذائی جزو ڈالنے سے پہلے ان کے معیار کو بہتر بنا کر ان کی قیمتوں میں کمی لانی چاہیے تاکہ محدود آمدنی والے افراد انھیں خرید تو سکیں، مستفید ہونا تو دور کی بات ہے۔