ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

’’ پاکستان نہیں امریکہ پاکستان کا محتاج ہے‘‘ سابق سی آئی اے سر براہ کی امریکہ کو وارننگ

datetime 29  اگست‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

نیو یارک(این این آئی) امریکی سی آئی اے کے سابق سربراہ مائیکل موریل نے واضح کیا ہے کہ پاکستان کی امداد بند یا کم کر کے اس پر دباؤ نہیں ڈالا جا سکتا کیونکہ امریکہ کا پاکستان پر ناجائز دباؤ کا حربہ کارگر نہیں ہو گا البتہ اس دباؤ سے امریکہ کو نقصان پہنچ سکتا ہے پاکستان کو نہیں کیونکہ پاکستان امریکی امداد سے آزاد ہو چکا ہے۔ چین جیسے دوست کی امداد اسے حاصل ہے اور امریکہ پاکستان کی فضائی اور زمینی راستوں کا

محتاج ہے جس کے تعاون کے بغیر یہ جنگ امریکہ جیت نہیں سکتا۔سی آئی اے کے سابق قائم مقام سربراہ مائیکل موریل نے ایک حالیہ انٹرویو میں صدر ٹرمپ کی تقریر پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو ہم کس قدر پالیسی میں تبدیلی پر آمادہ کر سکتے ہیں کہ وہ طالبان کی حمایت سے کنارہ کش ہو جائے تاہم ایران اور روس کی امداد سے طالبان میں ایک نئی قوت پیدا ہو چکی ہے ان میں نظریاتی عنصر ایسا ہے جسے شکست دینا ناممکن ہے وہ ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ کی پالیسی واضح نہیں ہے نہ ہی انہوں نے کوئی پلان دیا ہے کہ کتنی فوج بھیجی جائیگی اور اس کا رول کیا ہو گا جبکہ انہوں نے افغان حکومت کے کردار کی بھی وضاحت نہیں کی۔انہوں نے افغانستان سے امریکی فوج کے مکمل انخلاء کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کے لئے اس سے آسانیاں پیدا ہوں گی تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر امریکی افواج کی زمین پر موجودگی میں اضافہ ہوتا ہے تو طالبان کی کارروائیوں سے امریکی فوجیوں کے تابوت پہنچنے پر امریکہ میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔ مائیکل موریل نے مزید کہا کہ طالبان کے اثر و رسوخ کو روکنے کیلئے افغان حکومت کی کرپشن کے خاتمے اور افغان فوج کی کارکردگی بہتر بنانا ہو گی۔انہوں نے کہا کہ امریکہ اگر ہارے نہ بھی تو جنگ جیت نہیں سکتا۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کی جنگ نظریاتی ہے۔ ایران اور

روس کی پالیسیوں کا جائزہ لینا ضروری ہے جبکہ پاکستان کو آمادہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ طالبان کی حمایت سے دست کش ہو جائے کیونکہ پاکستان پر دباؤ¶ کارگر نہیں ہو گا وہ امریکی امداد سے آزاد ہو چکا ہے۔ چین اسکی ہر قسم کی مدد کر رہا ہے اور ماضی میں بھی امریکہ امداد بند کر کے دیکھ چکا ہے لہٰذا طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے اس کا سیاسی حل تلاش کرنا ہو گا۔انہوں نے افغانستان میں نیٹو اور امریکی افواج کے کمانڈر

جنرل نکلسن کے انٹرویو کا بھی حوالہ دیا جس میں انہوں نے بھی افغان مسئلے کے سیاسی حل پر زور دیا ہے۔ کمانڈر کا بھی خیال ہے کہ مذاکرات کے ذریعے ہی مسئلہ حل ہو گا اور طالبان کو بھی یہ احساس ہے کہ وہ جنگ جیت نہیں سکتے۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…