پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ اور پنجاب یونیورسٹی میں 1965سے 1969تک کوانٹم فزکس پڑھانے والے ریاض محمدخان نے گئے دنوں کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہتے ہیں عالم اسلام میں کئی گوہر نایاب آئے اور وقت کی دھول تلے دبتے چلے گئے، انہوں نے اپنی زندگیوں میں کئی کارہائے نمایاں سر انجام دئیے۔ ان میں سے کئی ایسے بھی تھے جو علم کی اس حد تک پہنچے
کہ جہاں ایک دوراہا تھا اور انہیں فیصلہ کرنا تھا کہ وہ خدا کا انتخاب کریں یا آگے بڑھ جائیں۔ ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق ریاض محمد خان اپنی یادداشت میں ایک ایسے ہی گوہر نایاب کا ذکر کرتے ہیں جس کا تعلق مادر وطن پاکستان سے تھا۔ ریاض محمد خان لکھتے ہیں کہ مجھے شفاعت حسین یاد ہیں جو میرے ایک سال سینیئر تھے اور انتہائی نایاب ذہانت اور معیار کے حامل تھے۔ ہم نے 1964 میں ایک ساتھ ٹوپولوجی کی تعلیم حاصل کرنی شروع کی۔ ایک ابتدائی بحث کے دوران ہمارے بہترین سپروائزر اور دوست ڈاکٹر ممتاز حسین قاضی، جو حال ہی میں ہارورڈ سے لوٹے تھے، نے ہمیں ایک غیر حل شدہ تھیورم سمجھایا۔شفاعت نے اس دن سے کلاسوں میں آنا بند کر دیا اور دو ماہ کے اندر اندر تھیورم کا حل پیش کر کے ایک ریسرچ پیپر تحریر کر لیا جو کہ ریاضی کے ایک مشہور جریدے جرنل آف دی لندن میتھ میٹیکل سوسائٹی میں شائع ہوا۔کہا جاتا ہے کہ اگر شفاعت کو رات میں کوئی خیال آجاتا اور انہیں کوئی کاغذ نا ملتا تو وہ اپنے بستر کی سفید چادر پر ہی لکھ ڈالتے، اور صبح اپنی والدہ سے کہتے کہ ان کی چادر نہ دھوئی جائے۔انہوں نے پھر پی ایچ ڈی کی اور کینیڈا میں پوسٹ ڈاکٹورل کام شروع کیا۔ چند سال بعد مجھے پتہ چلا کہ وہ تبلیغی بن چکے تھے۔ وہ کہا کرتے کہ انہیں ایک دو راہے کا سامنا تھا؛ کہ “خدا کا انتخاب کریں یا ریاضی کا۔”اس کے چند سال بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ اپنے جنون، یعنی ریاضی کی سختی تلے دب چکے تھے۔ ان کی زندگی کے سفر میں میں اپنے معاشرے کی کہانی دیکھتا ہوں۔