اسلام آباد (آئی این پی) سینئر قانون دان او ر وزیراعظم کے بچو ں کے وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا ہے کہ مفروضوں پر قانونی معاملات طے نہیں ہوتے، 30،40سال پرانے معاملات کا ریکارڈ نہیں،50سال کے کاروباری معاملات کی تفصیلات پیش کرنا ممکن نہیں، آرٹیکل 66کے استحقاق کے معاملے پر قانون واضع ہے ، پانامہ کیس کا حتمی فیصلہ دو ایک سے ہو گا، جے آئی ٹی کے پاس تمام مواد موجود تھا جسے انہوں نے نظر انداز کیا، جے آئی ٹی کا آدھا مواد سفید کاغذ پر لکھا گیا جو بغیر تصدیق شدہ تھا،
وزیراعظم کو دبئی کمپنی کا اعزازی طور پر چیئرمین بنایا گیا، آف شور کمپنی اور امارات میں نوکری پر نا اہلی نہیں ہو سکتی ، وزیراعظم کمپنی کے چیئرمین رہے پھر وہ کمپنی بھی ختم ہو گئی، اس بنیاد پر اگر سپریم کورٹ نااہل قرار دے گی تو معاملہ دور تک جائے گا، قانون تکنیکی خرابی کی بجائے نیت کو دیکھے گا، وزیراعظم کا دبئی کمپنی میں کوئی شیئر نہیں، والیم 10 میں کچھ نہیں صرف جے آئی ٹی کی درخواستیں تھیں جو انہوں نے مختلف ممالک کو بھیجیں، جواب نہیں آیا ، والیم 10پر ہمارے موکل کو تشویش نہیں ۔وہ ہفتہ کو نجی ٹی وی سے گفتگو کر رہے تھے۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ حسین نواز نے فلیٹس کی ملکیت سے متعلق کبھی انکار نہیں کیا جبکہ مریم نواز فلیٹس سے متعلق وضاحت کرچکی ہیں، مفروضوں پر 1992کی منی ٹریل کی بات کی جا رہی ہے، مفروضوں پر قانونی معاملات طے نہیں ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ منی ٹریل کی بات نہیں شیئرز ٹرانسفر کامعاملہ ہے، 20 سے 30سال پہلے کے معاملات کا ریکارڈ نہیں ہوتا، دونوں جانب سے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی جا رہی ہے،50سال کے کاروباری معاملات کی تفصیلات پیش کرنا ممکن نہیں۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ وزیراعظم کی نظر میں عدالت میں مکمل جواب دیا گیا، انہوں نے سمجھا جو دستاویز پیش کئے گئے وہ کافی ہیں، دستاویزات سے ثابت ہوتا ہے کہ 1980میں کثیر رقم حاصل تھی، آرٹیکل 66کے استحقاق کے معاملے پر قانون واضع ہے، پانامہ کیس کا حتمی فیصلہ دو، ایک سے ہو گا،20اپریل کا فیصلہ عبوری نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ 5رکنی بینچ کا فیصلہ ختم ہوا، تین رکنی بینچ کا فیصلہ حتمی ہو گا، تین رکنی بینچ نے وزیراعظم کو طلب کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ثابت کچھ بھی نہیں ہوا، حتمی فیصلے کا انتظار ہے،2006کے بعد حسین نواز فلیٹس کے معاملات کے ذمہ دار ہیں، سپریم کورٹ حتمی فیصلہ نہیں دے گا، معاملہ آگے چلے گا، جو دستاویز ہم نے پیش کئے ان پر جے آئی ٹی نے توجہ نہیں دی، جے آئی ٹی نے حسین نواز کو 5بار بلایا مگر ان سے مواد پر رائے نہیں مانگی، جے آئی ٹی کے پاس تمام مواد موجود تھا جسے انہوں نے نظر انداز کیا، جے آئی ٹی مخصوص تحقیقات سے مخصوص نتائج پر پہنچی۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جے آئی ٹی کا بہت سا مواد بغیر تصدیق شدہ ہے، انہوں نے ایک خط کو لے کر ڈھنڈورا پیٹا، جے آئی ٹی نے موجود مواد کو ٹھیک تناظر میں نہیں رکھا، جے آئی ٹی کا آدھا مواد سفید کاغذ پر لکھا گیا جو بغیر تصدیق شدہ ہے، وزیراعظم کو دبئی کمپنی کا اعزازی طور پر چیئرمین بنایا گیا انہوں نے دبئی کی کمپنی سے تنخواہ نہیں لی۔ انہوں نے کہا کہ آف شور کمپنی اور امارات میں نوکری پر نا اہلی نہیں ہو سکتی، وزیراعظم کمپنی کے چیئرمین رہے پھر وہ کمپنی بھی ختم ہو گئی،
اس بنیاد پر اگر سپریم کورٹ نااہل قرار دے گی تو معاملہ دور تک جائے گا، قانون تکنیکی خرابی کی بجائے نیت کو دیکھے گا، وزیراعظم کا دبئی کمپنی میں کوئی شیئر نہیں، والیم 10 میں کچھ نہیں صرف جے آئی ٹی کی درخواستیں تھیں جو انہوں نے مختلف ممالک کو بھیجیں، جواب نہیں آیا۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ والیم 10پر ہمارے موکل کو تشویش نہیں ہے۔