اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) اربوں روپے کا سکینڈل منظر عام پر، خیبرپختونخوا حکومت میں کھلبلی مچ گئی، تفصیلات کے مطابق مالی سال 2014-15ء کی آڈٹ رپورٹ میں خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے مختلف اداروں میں 28 ارب روپے کی مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ مالی سال 2014-15ء کی آڈٹ رپورٹ میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے خیبر پختونخوا حکومت کی اکاؤنٹس اور مختلف محکموں میں 28 ارب روپے سے زائد کی مالی بے قاعدگیوں کا انکشاف کیا ہے
اس سے پہلے مالی سال2013-14کی آڈٹ رپورٹ میں خیبر پختونخوا میں 17 ارب روپے سے زیادہ کی مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا تھا، اسی طرح آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی 2014-15ء پبلک سیکٹر انٹر پرائزز کی آڈٹ رپورٹ میں 7 ارب 98 کروڑ سے زیادہ کی مالی بے قاعدگیوں کا بھی انکشاف ہوا ہے، آڈٹ رپورٹ میں پارلیمانی سیکرٹری برائے محکمہ جنگلات نے غیر ضروری اخراجات، سرکاری گاڑی کے غلط استعمال اور ٹی اے ڈی اے اور الاؤنسز کی مد میں لاکھوں روپے خرچ اور وصول کیے، اس آڈٹ رپورٹ میں پارلیمانی سیکرٹری سے لاکھوں روپے وصول کرنے کے لیے سفارش کی گئی ہے، ان آڈٹ رپورٹس میں قواعد و ضوابط کے خلاف مختلف محکموں میں سرکاری ملازمین کو ترقیاں دینے اور ڈیپوٹیشن یا پھر دیگر اداروں سے صوبائی محکموں اور کمپنیوں میں ملازمت دے کر اربوں روپے کے غیر ضروری اخراجات کرنے پر بھی اعتراضات کیے گئے ہیں، سال 2014-15 کے دوران سب سے زیادہ 6 ارب 85کروڑ کی مالی بے قاعدگیوں کا انکشاف محکمہ سی اینڈ ڈبلیو میں کیا گیا ہے جب کہ دوسرے نمبر پر 5 ارب 89 کروڑ روپے سے زائد کی مالی بے قاعدگیوں کا انکشاف انرجی اینڈ پاور میں ہوا ہے، یو ایس اے آئی ڈی جو کہ امریکی امدادی ادارہ ہے کی جانب سے ملاکنڈ ڈویژن کی تعمیر نو و آبادی کاری کے لیے دی جانے والی امداد میں سے ایک ارب 10 کروڑ روپے کی مالی بے ضابطگی کا انکشاف ہوا ہے،
جن میں سے دو کروڑ پچاس لاکھ روپے ملبہ ہٹانے کے لیے اضافی اورغیر ضروری طور پر دیے گئے، آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی اس رپورٹ میں خیبر پختونخوا اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی پر بھی اعتراض کیا گیا ہے کہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے اربوں روپے کی نشاندہی کرنے کے باوجود پبلک اکاؤنٹس کمیٹی رقم وصول کرنے میں ناکام ہے جبکہ دوسری طرف صوبائی محکمے بھی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو ریکارڈ فراہم نہیں کر رہے ہیں،
اس وجہ سے محکموں کو مالی بے قاعدگیوں پر قابو پانے میں بھی ناکامی کا سامنا ہے، سردار حسین بابک نے مزید کہا کہ رپورٹ کے مطابق بجٹ خرچ نہ کرنے پر محکمہ خزانہ میں 4 ارب روپے سے زائد، محکمہ خوراک میں 3 ارب 87 کروڑ، محکمہ ہاؤسنگ میں 77 کروڑ 20لاکھ، محکمہ زراعت میں 15 کروڑ 50 لاکھ، محکمہ حج اوقاف اور مذہبی امور میں 9 کروڑ 50 لاکھ، محکمہ تعلیم میں 56 کروڑ 50 لاکھ، محکمہ ماحولیات میں10کروڑ80 لاکھ،
محکمہ صحت میں 19 کروڑ 70 لاکھ، محکمہ داخلہ و قبائلی امور میں23 کروڑ 10 لاکھ، محکمہ ایریگیشن میں 6 کروڑ 80 لاکھ، محکمہ صنعت میں 5 کروڑ 40 لاکھ، محکمہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ میں3 کروڑ 70 لاکھ، محکمہ پبلک ہیلتھ اینڈ انجینئرنگ میں 34کروڑ70لاکھ، ڈائریکٹوریٹ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں 26 کروڑ 70 لاکھ اور محکمہ ٹرانسپورٹ میں ایک کروڑ 20 لاکھ روپے کی مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف کیا گیا ہے،
آڈٹ رپورٹ کے مطابق محکمہ پبلک ہیلتھ اینڈ انجینئرنگ نے بٹ گرام میں واٹر سپلائی سکیم کے نام پر 8 کروڑ 60 لاکھ روپے نکالے تاہم آڈٹ کے دوران 8 کروڑ 60 لاکھ کی واٹر سپلائی سکیم غیر فعال پائی گئی ہے۔ سردار حسین بابک نے اس آڈٹ رپورٹ پر کہا کہ ان بے قاعدگیوں کی وجہ سے صوبے مالی و انتظامی طور پر لوٹا گیا ہے اس پر قانون کو حرکت میں ضرور آنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تین سال میں حکومت نے سرکاری خزانے کو 45 ارب کا نقصان پہنچایا کہ مالی بے قاعدگیوں کا ایک ریکارڈ ہے۔