لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) پنجاب پولیس کے اہلکار کی زیرحراست غیر ملکی لڑکی کو ورغلا کر شادی کرنے کے معاملہ پرسینئر جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں کوٹ لکھپت جیل کے سپرنٹنڈنٹ کی رپورٹ نے جیل اہلکاروں کی ملی بھگت کا پول کھول دیا جبکہ رپورٹ میں پنجاب پولیس کے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے ۔
تفصیلات کے مطابق ضلع کچہری کے سینئر جوڈیشل مجسٹریٹ ظفر فرید ہاشمی کو کوٹ لکھپت جیل سپرنٹنڈنٹ کو بھجوائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جوڈیشل گارد پولیس لائنز قلعہ گجر سنگھ کے جیل وین ڈرائیور شہزاد نے فارنر ایکٹ کے تحت گرفتار افغانی لڑکی فرشتہ بی بی کو ورغلا کر شادی کی جبکہ ملزمہ فرشتہ بی بی کو داتا دربار پولیس نے دربار سے گرفتار کیاگیا تھا، رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ عدالت نے ملزمہ کو فارنر ایکٹ کے تحت درج مقدمہ میں 3جون کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا رکھا تھا لیکن جوڈیشل گارد جیل ون کے ڈرائیور شہزاد نے ملزمہ کو 10جولائی کو جیل سے پیشی کے لئے لاتے ہوئے لیڈی کانسٹیبل پروین اور شمائلہ سراج کے ذریعے ورغلاتے ہوئے نکاح کرنے کی آفر کی اور لیڈی کانسٹیبل نے ملزمہ فرشتہ بی بی کو ملک سے ڈی پورٹ کئے جانے سے ڈرایا اور قانونی تحفظ ملنے اور مقدمہ سے بری ہونے کی لالچ دی، رپورٹ میں محکمہ پولیس کے ڈرائیور کے کردار کو مشکوک قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ڈرائیور پہلے بھی حراستی ملزموں کو موبائل فون پر باتیں کروانے کی سہولیات فراہم کرتا رہا ہے.رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عدالتوں کی جانب سے جیل بھجوائے گئے ملزم عدالتوں کی امانت ہوتے ہیں اور جیل اور پولیس حکام کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کا خیال رکھیں لیکن جیل وین کے ڈرائیور اور کانسٹیبلوں کی لاپرواہی پر محکمانہ کارروائی کی سفارش کر دی گئی ہے
جبکہ جوڈیشل مجسٹریٹ ظفر فرید ہاشمی نے افغانی لڑکی فرشتہ بی بی جان کو جرم ثابت ہونے پرگزشتہ روز 3ماہ قید اور 10ہزار جرمانے کی سزا سنا دی ہے، عدالت نے ملزمہ کی سزا پوری ہونے سے بعد فرشتہ بی بی کو افغانستان ڈی پورٹ کرنے کابھی حکم دیا ہے۔