اسلام آباد(این این آئی)سپریم کورٹ میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کیخلاف غیر ملکی فنڈنگ اور اثاثے چھپانے کے حوالے سے دائر درخواست کی سماعت کے دوران لندن فلیٹس اور بینک میں گروی رکھوانے کی دستاویزات جمع کرانے کیلئے عدالت عظمیٰ نے عمران خان کو 25 جولائی تک کی مہلت دیتے ہوئے سوال اٹھائے ہیں کہ عمران خان کی بیرون ملک آمدن کے ثبوت کیا ہیں اور لندن فلیٹ خریداری کے وقت بیچنے والے کو دی گئی غیرملکی آمدن کے ثبوت کہاں ہیں؟
غیر ملکی کمائی کا کوئی ثبوت ہے، ایک مدت بتادیں جس میں دستاویزات جمع ہوجائیں جبکہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ جہانگیر ترین کا معاملہ بھی دیکھنا ہوگا، دونوں مقدمات میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں اور دونوں کو سن کر ہی فیصلہ ہوسکتا ہے ٗ یہ معمول کے مقدمات نہیں ٗہم ان مقدمات کو جلد از جلد نمٹانا چاہتے ہیں ٗبعض دفعہ حالات ہمارے لیے بھی مشکلات پیدا کردیتے ہیں ٗ بطور ادارہ عدلیہ کیلئے بھی بہتر ہوگا کہ یہ مقدمے جلد ختم ہوں۔ جمعرات کو چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے مذکورہ کیس کی سماعت کی۔سماعت کے دوران چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری نے عدالت کو آگاہ کیا کہ عمران خان اور ایڈووکیٹ انور منصور سے بات ہوئی ہے ٗانور منصور ہارٹ سرجری کیلئے ہسپتال میں داخل ہیں اور علاج کے بعد 27 جولائی تک واپس آسکتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایک ہفتے میں انور منصور نے جواب جمع کروانا تھاجس پر تحریک انصاف کے وکیل فیصل چوہدری نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کے جواب پر جواب الجواب جمع کروا دیا گیا ہے جبکہ غیرملکی فنڈنگ سے متعلق نصف ریکارڈ موصول ہوگیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں عدالتی حکم پر عمل درآمد سے غرض ہے۔وکیل فیصل چوہدری نے بتایا کہ امریکہ سے ریکارڈ آنے میں وقت لگ رہا ہے ٗامید ہے بقیہ ریکارڈ (آج) جمعہ تک موصول ہوجائے گا، ریکارڈ ملتے ہی عدالت میں جمع کروا دیں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آئندہ ہفتے بینچ دستیاب نہیں ہوگا۔
لہذا انور منصور کے دلائل کیلئے کیس کی سماعت 27 یا 28 جولائی کو رکھ لیتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ججز نے تین تین ماہ پہلے عدم دستیابی کا بتا دیا تھا ٗ ججز نے 10 ہفتوں کی تعطیلات کم کرکے 3 ہفتوں تک کردی ہیں ٗہم چاہتے ہیں کہ اس مقدمے سے فارغ ہوکر عام لوگوں کے کیس سنیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جہانگیر ترین کا معاملہ بھی دیکھنا ہوگا، دونوں مقدمات میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں اور دونوں کو سن کر ہی فیصلہ ہوسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ معمول کے مقدمات نہیں ٗہم ان مقدمات کو جلد از جلد نمٹانا چاہتے ہیں ٗبعض دفعہ حالات ہمارے لیے بھی مشکلات پیدا کردیتے ہیں اور بطور ادارہ عدلیہ کے لیے بھی بہتر ہوگا کہ یہ مقدمے جلد ختم ہوں۔حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے عدالت کو بتایا کہ امریکا میں 7 اگست کو ان کی بھی ڈاکٹر سے اپائنمنٹ ہے جبکہ علاج کے بعد حج پر جانے کی نیت کررکھی ہے لہذا مناسب ہوگا کہ 7 اگست سے پہلے سماعت مکمل کی جائے۔
اکرم شیخ نے کہا کہ دل کی پیچیدہ ترین سرجری بھی 3 گھنٹے سے زیادہ نہیں ہوتی ٗمیں انور منصور سے درخواست کرتا ہوں کہ 21 جولائی کو واپس آجائیں۔وکیل پی ٹی آئی نعیم بخاری نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ وہ انور منصور سے دوبارہ بات کریں گے۔پی ٹی آئی وکیل نعیم بخاری نے دلائل دیے کہ عدالت نے عمران خان کی کرکٹ آمدن پر آبزرویشن دی تھی جبکہ درخواست گزار نے کرکٹ آمدن سے فلیٹ خریدنے پر اعتراض نہیں کیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ پاناما لیکس کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے عمران خان کو نوٹس جاری کیا، جو اس تمام معاملے کی چھان بین کررہا ہے ٗکرکٹ کلبز سے دستاویزات آرہی ہیں، آئندہ سماعت سے قبل تمام دستاویزات جمع کروا دوں گاجبکہ 55 سے 60 ہزار پاؤنڈ کا مورٹگیج تھا ٗ جس کی ادائیگی کی دستاویزات بھی موجود ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ سب کچھ ٹکڑوں میں ہی عدالت کو دیا جاتا ہے ٗ ہوسکتا ہے مزید دستاویزات دینے کی اجازت نہ دیں۔اس موقع پر حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ نعیم بخاری دلائل جتنے مرضی دیں ٗمزید دستاویزات نہ دیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ سمجھ نہیں آرہا یہ مقدمہ ٹرائل ہے یا انکوائری؟
اکرم شیخ نے جواب دیا کہ عمران خان کے خلاف کیس فراڈ کا ہے ٗ صادق و امین کی تشریح بھی دیکھنا ہوگی، میں نے اس پر کئی لغات کا مطالعہ کیا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ ہم نے بھی صادق و امین کی تشریح دیکھی ہے ٗہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ کیا فلیٹ خریداری کیلئے رقم عمران خان نے ہی ادا کی۔ اکرم شیخ نے کہاکہ عمران خان کے وکلاء وقفے وقفے سے دستاویزات جمع کراتے ہیں، ایسے ہوتا رہا تو ان کا جواب کیسے اور کب دوں گا؟
چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل کو مخاطب کرکے کہاکہ بخاری صاحب، تمام دستاویزات کب دیں گے؟۔ ویسے آپ کے پاس ہے کیا ٗآپ نے شاید خود بھی نہیں پڑھا۔ نعیم بخاری نے بتایا کہ پیسہ کہاں سے آیا اور ادائیگی کیسے ہوئی ٗ یہ عدالت کے سوالات ہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ فلیٹ کی ادائیگی نقد تو نہیں کی گئی ہوگی؟جس پر نعیم بخاری نے بتایا کہ ادائیگی بذریعہ بینک کی گئی تھی۔چیف جسٹس نے کہا کہ اگر مسئلہ صرف فلیٹ ظاہر نہ کرنا ہے تو نعیم بخاری درست کہہ رہے ہیں ٗ
انھوں نے درخواست گزار کے وکیل اکرم شیخ سے استفسار کیا کہ آپ نے پٹیشن میں یہ اعتراض کہاں کیا؟چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان نے بینیفشل مالک ہونے کی تصدیق کی اور بطور حقیقی مالک فلیٹ کو گوشواروں میں ظاہر کیا گیا ٗہم نے صرف ادائیگی کا ثبوت مانگا تھا اور صرف شفافیت دیکھنا چاہتے تھے، عدالت دیکھنا چاہتی تھی کہ پیسہ پاکستان سے منی لانڈرنگ کے ذریعے تو نہیں گیا، عمران خان سے آمدن اور اخراجات کی تفصیل نہیں مانگی گئی تھی۔
اکرم شیخ نے کہا کہ عمران خان نے انتخابی گوشواروں میں فلیٹ اپنی ملکیت ظاہر کیا ٗفلیٹ درحقیقت نیازی سروسز کی ملکیت ہے۔اس موقع پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ کبھی آپ کہتے ہیں فلیٹ عمران خان کا ہے ٗکبھی کہتے ہیں فلیٹ آف شور کمپنی کا ہے ٗاکرم شیخ صاحب آپ کے موقف میں تضاد ہے۔جس پر اکرم شیخ نے جواب دیا کہ ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ عمران خان نے اٹھایا، نیازی سروسز نے نہیں، دستاویزات آتی رہیں تو جواب الجواب کب دوں گا۔جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ کیا ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھانا بے ایمانی ہے؟
اگر بے ایمانی ہے تو فائدہ اٹھانے والے سب بے ایمان ہیں۔اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آرٹیکل 62،63 کے اطلاق کا طریقہ کار اور معیار کیا ہے؟چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آف شور کمپنیاں عموماً پیسہ چھپانے اور منی لانڈرنگ کیلئے استعمال ہوتی ہیں، عدالت اطمینان کرنا چاہتی ہے کہ لندن فلیٹ کا پیسہ پاکستان سے نہیں گیا ٗعمران خان کے ٹیکس ریٹرن آپ ہی جمع کروا دیں، ہم نہیں چاہتے کہ اب کوئی حکم جاری کریں۔
جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ اگر عمران خان لندن فلیٹ کی ملکیت تسلیم کرتے ہیں تو پھر ثبوت پیش کریں، چیف جسٹس نے کہا کہ کیس ایک ایسے شخص کی ایمانداری کا ہے جو اس وقت عوامی عہدہ دیکھتا ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بیرون ملک سے کمائی گئی آمدن ٹیکس سے مستثنیٰ ہوتی ہے جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ 1971 سے 1983 تک عمران خان نے جتنی رقم کمائی، اس کی تمام تفصیلات فراہم کریں گے۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل سے پوچھا کہ عمران خان کی بیرون ملک آمدن کے ثبوت کیا ہیں اور لندن فلیٹ خریداری کے وقت بیچنے والے کو دی گئی غیرملکی آمدن کے ثبوت کہاں ہیں؟اس موقع پر حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ اشفاق تولہ کو پیش کردیاجنہوں نے بتایا کہ وہ ٹیکس ریفارمز کمیشن کے رکن ہیں، انھوں نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان زمان پارک لاہور میں گھر کے مالک تھے اور اس وقت ٹیسٹ کرکٹ کھیلتے تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کیس میں فریق نہ بنیں، آپ کی اس بات کا کیا ثبوت ہے؟ جس پر اشفاق تولہ نے کہا کہ اس بات کی تصدیق کروانے کی ضرورت ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ کے پاس تصدیق شدہ مواد نہیں تو بات نہ کریں ٗآپ چاہتے ہیں ہم ڈیکلیئر کریں کہ عمران خان صادق اور امین نہیں ٗ ان باتوں پر کیسے ڈیکلریشن دیں جن کا ابھی یقین ہی نہیں ہوا۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ قانونی نکات پر معاونت کرسکتے ہیں ٗریذیڈنٹ اور نان ریذیڈنٹ کی تعریف سمجھنے میں آپ کو خود مشکل ہورہی ہے،
عام آدمی کو سمجھنے میں کتنی مشکلات ہوں گیٗ عام آدمی کو تو اس کے نتائج کا بھی علم نہیں ہوگا۔اس موقع پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تمام کیسز کی اہمیت ہے ٗ جہانگیر ترین کا کیس بھی منسلک ہے۔جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ جہانگیر ترین نااہلی کیس اتنا اہم نہیں جتنا عمران خان کا کیس ہے، تاہم چیف جسٹس نے کہا کہ بلاوجہ مقدمات میں تاخیر کا سوچ بھی نہیں سکتے ٗایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں جن کی وجہ سے مقدمات میں تاخیر ہو جاتی ہے، ہم میڈیا والوں اور عوام کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہم مقدمات بلا وجہ تاخیر کا شکار نہیں کرتے۔ چیف جسٹس نے وکیل پی ٹی آئی سے کہا کہ عمران خان کے ٹیکس ریٹرن آپ ہی جمع کروا دیں ٗہم نہیں چاہتے کہ اب کوئی حکم جاری کریں۔بعدازاں سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت 25 جولائی تک ملتوی کردی