حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمرؓ اسلام لائے تو انہوں نے پوچھا کہ قریش میں سب سے زیادہ باتوں کو نقل کرنے والا کون ہے؟ انہیں بتایا گیا کہ جمیل بن معمر جمچی ہے۔ چنانچہ حضرت عمرؓ صبح کو ان کے پاس گئے۔ حضرت عبداللہؓ (بن عمر) فرماتے ہیں کہ میں بھی حضرت عمرؓ کے پیچھے پیچھے گیا۔ میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ کیا کرتے ہیں؟ میں بچہ تو ضرور تھا لیکن جس چیز کو دیکھ لیتا تھا اسے سمجھ لیتا تھا۔
حضرت عمرؓ نے جمیل کے پاس جا کر اس سے کہا اے جمیل! کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں اور محمدؐ کے دین میں داخل ہو گیا ہوں؟ حضرت عبداللہؓ فرماتے ہیں کہ (یہ سن کر) جمیل نے حضرت عمرؓ کو کچھ جواب نہ دیا بلکہ کھڑے ہو کر اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے چل دیا۔ حضرت عمرؓ اس کے پیچھے چل دیئے اور میں حضرت عمرؓ کے پیچھے یہاں تک کہ جمیل نے مسجد (حرام) کے دروازے پر کھڑے ہو کر زور سے پکار کر کہا اے جماعت قریش! غور سے سنو! خطاب کا بیٹا عمر بے دین ہو گیا ہے۔ قریش کعبہ کے ارد گرد اپنی اپنی مجلسوں میں بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت عمرؓ نے جمیل کے پیچھے سے کہا یہ غلط کہتا ہے میں تو مسلمان ہوا ہوں اور کلمہ شہادت اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد ان محمد عبدہ و رسول پڑھا ہے۔ یہ سنتے ہی وہ سب لوگ حضرت عمرؓ کی طرف جھپٹے۔ وہ سب حضرت عمرؓ سے لڑتے رہے یہاں تک کہ سورج سروں پر آ گیا اور حضرت عمرؓ تھک کر بیٹھ گئے اور سب مشرک حضرت عمرؓ کے سر پر کھڑے تھے اور حضرت عمرؓ فرما رہے تھے کہ جو تمہارا دل چاہتا ہے کر لو۔ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ہم (مسلمان) تین سو ہو گئے تو یا تو تم (مکہ) ہمارے لئے چھوڑ کر چلے جاؤ گا یا ہم تمہارے لئے چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں یوں ابھی ہو ہی رہا تھا کہ قریش کا ایک بوڑھا آدمی سامنے سے آیا جو یمنی چادر اور دھاری دار کرتا پہنے ہوئے تھا۔ وہ ان کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا اور اس نے پوچھا تم لوگوں کو کیا ہوا؟
لوگوں نے کہا عمر بے دین ہو گیا ہے۔ اس بوڑھے نے کہا ارے چھوڑو۔ ایک آدمی نے اپنے لئے ایک بات پسند کی ہے تم اس سے کیا چاہتے ہو؟ تم یہ سمجھتے ہو کہ قبیلہ بنو عدی اپنے آدمی (حضرت عمرؓ) کو ایسے ہی تمہارے حوالے کر دیں گے؟ اس آدمی کو چھوڑ دو اور چلے جاؤ۔ حضرت ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم!
اس بڑے میاں کے کہتے ہی وہ لوگ ایسے حضرت عمرؓ سے چھٹ گئے جیسے کہ ان کے اوپر سے کوئی چادر اتار لی گئی ہو جب میرے والد ہجرت کر کے مدینہ چلے گئے تو میں نے ان سے پوچھا ابا جان! جس دن آپ اسلام لائے تھے اور مکہ کے کافر آپ سے لڑ رہے تھے تو ایک آدمی نے آ کر ان لوگوں کو ڈانٹا تھا جس پر وہ لوگ سب آپ کو چھوڑ کر چلے گئے تھے وہ آدمی کون تھا؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا اے میرے بیٹے! وہ عاص بن وائل سہمی تھے۔