سڈ نی (نیوزڈیسک) قومی ٹیم کے کوچ وقاریونس کا کہنا ہے کہ پاکستانی کرکٹ جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیے بغیر عالمی معیار پر نہیں آسکتی ، کہ ورلڈ کپ میں پاکستان اور دوسری ٹیموں کے درمیان واضح فرق موجود تھا، فرسٹ کلاس کرکٹ کے ڈھانچے کو معیاری بنانا ہوگا۔ وقاریونس نے غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوے کہاکہ پاکستانی کرکٹ کو جدید دو ر کے تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ کیے بغیر عالمی معیار پر نہیں لایاجاسکتاہے اور 2015کہ ورلڈ کپ میں پاکستان اور دوسری ٹیموں کے درمیان واضح فرق موجود تھا۔ ا نہوں نے کہا کہ اگر پاکستانی کرکٹ کو بچانا ہے تو فرسٹ کلاس کرکٹ کے ڈھانچے کو معیاری بنانا ہوگا تاکہ ہمارے کھلاڑی جب بین الاقوامی کرکٹ میں آئیں تو وہ دوسری ٹیموں کا اعتماد سے مقابلہ کر سکیں۔ وقاریونس نے کہا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے یقیناً ورلڈ کپ میں دیکھ لیا ہوگا کہ پاکستانی ٹیم اور دوسروں کے معیار میں کتنا واضح فرق ہے اور انھیں یقین ہے کہ وہ پاکستان کی فرسٹ کلاس کرکٹ کے ڈھانچے کو مضبوط بنانے پر ضرور توجہ دے گا۔ آج کل کی کرکٹ میں 300 رنز کا بننا عام سی بات ہوگئی ہے لہذٰا ہمیں ایسے بیٹسمین تلاش کرنے ہوں گے جو 300 رنز تک سکور لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہوں ۔ا نہوں نے کہا کہ ہم اپنی کنڈیشنز میں کھیلتے ہوئے بہت اچھے ہیں لیکن جب بیٹسمین باہر کی کنڈیشنز میں آ کر کھیلتے ہیں تو ہم بہت پیچھے دکھائی دیتے ہیں خاص کر بیٹسمینوں کو سیم، سوئنگ اور باو¿نس پر خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستانی کوچ نے کہا کہ عصر حاضر کی کرکٹ میں پاور ہٹنگ کی بڑی اہمیت ہے لہذٰا اس بدلتی کرکٹ کے اعتبار سے ہمیں بھی خود کو بدلنا ہوگا۔ وقاریونس نے کہا کہ آج کل کی کرکٹ میں 300 رنز کا بننا عام سی بات ہوگئی ہے لہذٰا ہمیں ایسے بیٹسمین تلاش کرنے ہوں گے جو 300 رنز تک سکور لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ ا نہوں نے کہا کہ ہمارے بیٹسمینوں کو پاکستان سے باہر ایڈجسٹ ہونے میں وقت لگتا ہے۔ اسی ورلڈ کپ میں حصہ لینے والی بھارتی ٹیم کو آسٹریلوی کنڈیشنز اور باو¿نسی وکٹوں سے ہم آہنگ ہونے میں دو ماہ لگے جس کے بعد ہی اس کی کارکردگی میں بہتری آئی جبکہ پاکستانی ٹیم کو ورلڈ کپ سے قبل صرف چار دن کا تربیتی کیمپ ملا وہ بھی دھند کی نذر ہوگیا تھا جس کے بعد وہ نیوزی لینڈ پہنچی لہذٰا اسے تیاری کا وقت ہی نہ مل سکا۔ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ اگر زیادہ عرصے تک بحال نہ ہوئی تو ڈر یہ ہے کہ بچا کھچا ٹیلنٹ بھی ختم نہ ہو جائے ۔ انھوں نے کہا کہ 1992 میں پاکستانی ٹیم عالمی کپ سے چھ ہفتے قبل آسٹریلیا پہنچی تھی اوراسے ان کنڈیشنز سے ہم آہنگ ہونے کااچھا خاصا وقت مل گیا تھا۔ وقاریونس نے کہا کہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ اگر زیادہ عرصے تک بحال نہ ہوئی تو ڈر یہ ہے کہ بچا کھچا ٹیلنٹ بھی ختم نہ ہو جائے۔ وقار یونس نے کہا کہ بولنگ میں پاکستان کے پاس ہمیشہ ٹیلنٹ رہا ہے لیکن بیٹنگ میں ہم تگ ودو کرتے رہے ہیں۔ ’انھیں امید ہے کہ جب مصباح الحق اور یونس خان بین الاقوامی کرکٹ سے رخصت ہوں گے تو اظہرعلی، اسد شفیق اور حارث سہیل ان کی جگہ لینے کے لیے تیار ہوں گے کیونکہ یہ تینوں بہت ہی باصلاحیت بیٹسمین ہیں ان کے ساتھ ساتھ ہمیں باصلاحیت نوجوان کرکٹرز سامنے لانے ہوں گے۔‘ وقاریونس نے کہا کہ انہیں دکھ ہے کہ پاکستانی ٹیم ورلڈ کپ کے کوارٹرفائنل سے آگے نہ بڑھ سکی لیکن اس کے باوجود اس ٹیم نے جو بھی وسائل دستیاب تھے اس میں رہ کر اچھی کارکردگی دکھائی خاص کر بولرز نے اس عالمی کپ میں عمدہ بولنگ کی اور مشکلات کے باوجود ہمت نہیں ہاری۔ وقاریونس نے کہا کہ سعید اجمل محمد حفیظ جنید خان اور عمرگل کے بغیر ورلڈ کپ کھیلنا آسان نہ تھا۔ انھوں نے کہا کہ مشکوک بولنگ کے بارے میں آئی سی سی کے قانون کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو پہنچا۔ وقار یونس نے کہا کہ وہ کھلاڑی کپتان اور کوچ کی حیثیت سے ورلڈ کپ جیتنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں جس کا انھیں افسوس ہے لیکن وہ اس بات کو ہنس کر ٹال دیتے ہیں کیونکہ جو چیز آپ کے نصیب میں نہ ہوں اس کا غم کرنا صحیح نہیں۔ وہ صرف ورلڈ کپ ہی نہیں بلکہ پوری انٹرنیشنل کرکٹ کے بارے میں سوچتے ہیں اور ان کی کوشش اور خواہش ہے کہ پاکستانی ٹیم کی کارکردگی کا گراف اوپر جائے۔