ایک دفعہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ رات کے وقت مدینہ کی گھاٹیوں میں مضبوط قدم اٹھاتے ہوئے جا رے تھے کہ آپ رضی اللہ عن نے ایک گھر سے کسی آدمی کی آواز سنی جو بے ہودہ الفاظ کے ساتھ گانا گا رہا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فوراً اس کے گھر کی دیواری پھلانگی اور فرمایا اے خدا کے دشمن!
تیرا کیا خیال ہے، کیا تیرا گناہ خدا تعالیٰ سے چھپ سکتا ہے؟ اس آدمی نے کہا کہ اے امیرالمومنین! جلدی نہ کیجئے اگر میں نے خدا تعالیٰ کی ایک نافرمانی کی ہے تو آپ نے خدا کی تین نافرمانیاں کی ہیں۔ ایک تو آپ نے تجسس (ٹوہ لگانا) کیا جبکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ’’وَلاَتَجَسَّسُوا (الحجرات12:)‘‘ یعنی ٹوہ مت لگاؤ۔ دوسرا آپ دیوار پھلانگ کر آئے جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:’’واتُواالبُیُوتَ مَن اَبوَابِھَا، (البقرہ 189:)‘‘ یعنی گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ۔اور تیسری نافرمانی یہ کی کہ آپ رضی اللہ عنہ بلااجازت اندر داخل ہوئے۔ حالانکہ اللہ جل شانہ فرماتے ہیں ’لاَ تَد خُلُو بُیُوتاً غَیرَ بُیُوتَکُم حَتّٰی تَستَاذِنُوا وتُسَلِّمُوا عَلٰی اَھلِھَا (النور 37:)’’یعنی کسی کے گھر طلب اجازت کے بغیر داخل نہ ہو اور ان کو سلام کرو‘‘۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا میرے ساتھ نیکی کرو گے ، اگر تم مجھے معاف کر دو؟ اس آدمی نے کہا کہ ہاں، اس نے آپ رضی اللہ عنہ کو معاف کیا، آپ رضی اللہ عنہ وہاں سے نکلے اور اس آدمی کو چھوڑ دیا۔