سحری کے وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ مدینہ کی گلی کوچوں میں گھوم رہے تھے اور لوگوں کے حالات معلوم کر رہے تھے کہ اچانک آپ رضی اللہ عنہ کے کان میں ایک پریشان حال عورت کی آواز پڑی جو اپنے جذبات کا ان دو شعروں میں اظہار کر رہی تھی۔ ’’رات طویل ہو گئی اور اس کے اطراف میں تاریکی پھیل گئی۔
اگر خدا کا خوف نہ ہوتا جس کے مثل کوئی نہیں تو اس چارپائی کی تمام جوانب زور سے ہلا دی جاتیں‘‘۔ان دو شعروں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر بڑا اثر کیا، اس عورت سے اجازت لی، پھر تشریف لا کر پوچھا، تو کیوں پریشان ہے؟ اس نے غمگین ہو کر کہا کہ آپ رضی ا للہ نہ نے میرے خاوند کو اتنے مہینوں سے جلاوطن (شہر سے دور) کر رکھا ہے۔ حالانکہ مجھے اس کا اشتیاق ہو رہا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سنجیدگی سے پوچھا کہ کیا تمہارا ارادہ کسی برائی کا ہے؟ اس عورت نے کہا کہ معاذ اللہ! ہرگز نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حوصلہ رکھو، تمہارے شوہر تک پیغام پہنچ جائے گا۔ بعدازاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ (اپنی صاحبزادی) حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تم سے ایک اہم بات پوچھنا چاہتا ہوں، تم اس کی وضاحت کر دو، پھر دھیمی آواز میں پوچھا کہ عورت کتنے عرصہ تک اپنے خاوند سے صبر کر سکتی ہے؟ ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے اپنا سر شرم کے مارے نیچے کر لیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان پر تخفیف کرتے ہوئے فرمایا کہ بیٹی! بیشک اللہ تعالیٰ حق بات کہنے سے شرم نہیں فرماتے! حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ نے حیام و شرم کی وجہ سے زبان سے تونہیں جواب دیا، البتہ ہاتھ کے اشارہ سے کہا کہ تین ماہ تک یا زیادہ سے زیادہ چار ماہ تک۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پھریہ فرمان جاری کر دیا کہ کوئی لشکر تین ماہ سے زیادہ نہ روکا جائے۔