مولانا رومؒ فرماتے ہیں کہ نبی کریمؐ کے ہاں ایک یہودی آیا۔ ذرا دور کے علاقے کا تھا۔ اسے وہیں رات ہو گئی۔ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا کہ اب تجھے دیر ہو گئی ہے اس لیے آج مہمان کے طور پر یہیں ٹھہر جاؤ، وہ ٹھہر گیا۔ رات کو اس کو کھانا دیا گیا، اس نے خوب پیٹ بھر کر کھانا کھایا، پھر اس کو بستر میں سلا دیاگیا۔
رات کو اس کا پیٹ خراب ہو گیا، حتیٰ کہ بستر میں ہی اس کا پاخانہ نکل گیا۔ اس کے کپڑے بھی خراب ہو گئے، جسم بھی خراب ہو گیا اور بستر بھی خراب ہو گیا۔ اسے شرم بھی آئی۔ چنانچہ وہ اسی حالت میں وہاں سے راتوں رات نکلا اور کہیں جاکر نہایا اور کپڑے دھوئے۔ اس نے وہیں سے واپس جانے کا ارادہ کیا لیکن پھر اسے خیال آیا کہ میں تو اُٹھ کر آ گیا مگر فلاں چیز وہیں بھول آیا ہوں۔ اب شرم کے مارے اسے واپس تو آنا پڑا کیونکہ وہ چیز وہ چھوڑ نہیں سکتا تھا۔ چنانچہ جب وہ واپس آیا تو فجر ہو چکی تھی۔ نبی کریمؐ فجر کی نماز کے بعد مہمان کا پتہ کرنے گئے تو پتہ چلا کہ مہمان تو غائب ہو چکا ہے۔ اور بستر سے نجاست کی بدبو آ رہی ہے۔ اللہ کے پیارے حبیبؐ نے اپنے اہل خانہ کو نہیں بتایا، بلکہ خود پانی بھر کے لائے اور خود اس نجاست کو صاف فرمانے لگے، جب آپؐ بستر کو صاف فرما رہے تھے تو اس وقت وہ یہودی آیا۔ اس نے جب اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھا تو کہنے لگا: میں کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوتا ہوں، یہ اخلاق واقعی اللہ کے نبیؐ کے ہی ہو سکتے ہیں۔۔۔ اللہ اکبر کبیراً۔