کراچی(نیوز ڈیسک)کاٹن جنرزنے اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ شرح سود میں کم از کم 2فیصد کمی کی جائے تاکہ پیداواری لاگت کم ہونے سے کاٹن انڈسٹری بین الاقوامی منڈیوں میں دوسرے ملکوں سے بہتر مقابلہ کرسکے۔چیئر مین کاٹن جنرز فورم پاکستان احسان الحق نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے آئندہ دو ماہ کیلیے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان 21 مارچ کو کیا جا رہا ہے ملک بھر کے کاٹن جنرز نے گورنر اسٹیٹ بینک سے اپیل کی ہے کہ شرح سود میں کم از کم 2فیصد کمی کی جائے تاکہ پیداواری لاگت کم ہونے سے کاٹن انڈسٹری بین الاقوامی منڈیوں میں دوسرے ملکوں سے بہتر مقابلہ کرسکے۔انہوں نے کہاکہ چین کی جانب سے نئی کاٹن پالیسی کا ابھی تک اعلان نہ ہونے اور یورو کی قیمت میں مسلسل کمی کے رجحان کے باعث نیویارک کاٹن ایکسچینج میں گزشتہ ہفتے کے دوران بھی روئی کی قیمتوں میں مندی کا رجحان جاری رہا لیکن روپے کے مقابلے میں ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر اور پاکستان سمیت کپاس پیدا کرنے والے دنیا کے بیشتر ممالک میں روئی کے اسٹاکس میں غیر معمولی کمی کی اطلاعات اور پاکستان میں موسمی حالات کے باعث کپاس کی بوائی کی دو سے تین ہفتوں میں متوقع تاخیر کے باعث پاکستان میں روئی کی قیمتوں میں کافی استحکام دیکھا جارہاہے اور توقعات کے مطابق اگر رواں ہفتے کے دوران روپے کے مقابلے میں یورو کی قدر میں تیزی کا رجحان سامنے آیا تو یورپی یونین کے ممالک میں پاکستان سے ویلیو ایڈڈ کاٹن پراڈکٹس کی برآمدات میں تیزی کا رجحان سامنے آنے سے روئی کی قیمتوں میں مزید تیزی سامنے آ سکتی ہے۔۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے کے دوران امریکا میں ہونے والے ڈبلیو ٹی او کے ایک اہم اجلاس میں پاکستان سمیت کپاس پیدا کرنے والے تمام ممالک نے چین کی جانب سے اپنے کپاس کے کاشتکاروں کو دی جانے والی سبسڈی پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ چین کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ اپنے کپاس کے کاشتکاروں سے زیادہ سے زیادہ 10 فیصد تک سبسڈی دے تاکہ دنیا کے دیگر ممالک کو سبسڈی بارے مسائل کا سامنا نہ کرنے پڑے ۔معلوم ہوا ہے کہ چین اس وقت اپنے کاشتکاروں کو 100فیصد کے لگ بھگ سبسڈی دے رہا ہے جس سے کپاس پیدا کرنے والے دوسرے ممالک کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔انہوں نے بتایا کہ چین نے ابھی تک نہ تو اپنی نئی کاٹن پالیسی کا اعلان کیا ہے اور نہ ہی کپاس کے کاشتکاروں کو دی جانے والی سبسڈی کے بارے میں کسی پالیسی کا اعلان کیا ہے جسے دنیا بھر میں تشویش کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔