اتوار‬‮ ، 17 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

’’عمران خان واقعی دل کے بادشاہ ہیں‘‘

datetime 15  مارچ‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) نصرر جاوید اپنے کالم میں لکھتےہیں کہ عورت کے احترام کو یقینی بنانے کے غم میں گھلے ٹی وی سکرینوں پر براجمان سماج سدھارخواتین حضرات کو مگر یاد نہیں رہا کہ عفت رضوی نام کی ایک صحافی خاتون بھی ہیں۔ میں انہیں ذاتی طورپر ہرگز نہیں جانتا۔ سنا ہے سپریم کورٹ کی کارروائی کو رپورٹ کرتی ہیں۔سپریم کورٹ کے بارے میں خبریں دینے والے رپورٹروں نے اپنی ایک تنظیم بھی بنارکھی ہے۔چند روز قبل اس تنظیم نے عمران خان صاحب سے بنی گالہ میں

تفصیلی گفتگو کا وقت مانگا تھا۔ نظر بظاہر اس ملاقات میں ہوئی گفتگو’’’آف دی ریکارڈ‘‘ تھی۔اس خاتون نے مگر اپنے سمارٹ فون کے ذریعے عمران خان صاحب کی جانب سے ادا کردہ ’’پھٹیچر‘‘ اور ’’ریلوکٹے‘‘والے الفاظ ریکارڈ کرلئے۔ بعدازاں ان کلمات کو محترمہ نے ایک ٹویٹ کے ذریعے دنیا کے سامنے رکھ دیا۔دہائی مچ گئی۔عمران خان صاحب کی ان الفاظ کی وجہ سے مذمت شروع ہوئی تو وہ ہرگز معذرت خواہ نظر نہ آئے۔ انہوں نے ایمانداری کے ساتھ اپنے ادا کردہ الفاظ کے استعمال کا دفاع کیا۔سپریم کورٹ کے رپورٹروں کی تنظیم نے اس کے باوجود اپنی ساتھی خاتون کی ایک باقاعدہ پریس ریلیز کے ذریعے مذمت کرنا ضروری سمجھا۔ ہم صحافیوں کا گروہ جب کسی شخصیت سے ’’آف دی ریکارڈ‘‘ گفتگو کے لئے ملاقات کرے تو اس ملاقات میں ہوئی گفتگو کو منظرِ عام پر لانا غیر معیوب سمجھا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ کے رپورٹروں نے اسی اصول کا اطلاق کیا۔ اپنی ہی برادری کی جانب سے ہوئی مذمت مجھ ایسے صحافیوں کے لئے کسی زمانے میں ایک کڑی سزا سمجھی جاتی تھی۔زمانہ مگر اب بدل چکا ہے۔مذمت کافی نہیں سمجھی جاتی۔ہم غلطیوں کا ارتکاب کرنے والوں کو عبرت کا نشان بنانے پر بضد ہوچکے ہیں۔عمران خان کے ادا کردہ الفاظ کو برسرِ عام لانے والی خاتون رپورٹر کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ سوشل میڈیا پر اس کی بہت بھداڑائی گئی۔اس بھد سے بھی کچھ لوگوں کی مگر تسلی نہ ہوئی۔ فیس بک پر بالآخر ایک تصویر پھیلادی گئی۔اس کے ذریعے پیغام یہ دیا گیا کہ مذکورہ خاتون نے ایک غیر مسلم

امریکی سے شادی کررکھی ہے اور اس کے شوہر کا تعلق مبینہ طورپر بدبختوں کے اس گروہ سے ہے جو ’’بھینسا‘‘جیسے ناموں سے ہمارے مذہبی شعائر اور مقدس ہستیوں کو انٹرنیٹ پر تضحیک کا نشانہ بناتا رہتا ہے۔مذکورہ خاتون جس کی شادی درحقیقت ایک پاکستانی مسلمان سے ہوئی ہے اپنی جان بچانے کے خوف میں مبتلا ہو گئی۔ گزشتہ جمعرات کا پورا دن اس نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے صدرشکیل انجم کے دفتر میں روتے ہوئے

صرف کیا۔ شکیل نے گھبرا کر اس کی مدد کے لئے صحافیوں کی یونین سے رابطہ کیا۔ افضل بٹ اس تنظیم کے اہم رہ نما ہیں۔بالآخر شکیل انجم اور افضل بٹ کی کاوشوں سے مذکورہ خاتون اپنے خاوند سمیت بنی گالہ میں عمران خان صاحب کے روبرو حاضر ہوگئی۔ عمران خان صاحب نے مسکراتے ہوئے دریادلی کے ساتھ اسے معاف کردیا۔ اس کے ساتھ ایک تصویر بھی کچھوائی۔ وہ تصویر سوشل میڈیا پر آئی تو مذکورہ خاتون کے خلاف

سنگین الزامات کا طوفان بھی رک گیا۔ مجھے یہ پیغام مل گیا کہ عمران خان صاحب کی ذات اور سیاست پر تنقیدی کلمات لکھنے یا بولنے سے پہلے اس حقیقت کو مدنظر رکھوں کہ موصوف کی ’’توہین‘‘ دینی شعائر اور مقدس ہستیوں کا مذاق اڑانے والے گروہ کا رکن بنادے گی۔عورتوں کے احترام کو یقینی بنانے کے غم میں مبتلا میرے سماج سدھار ساتھیوں نے مگر اس پہلو کو کمال فیاضی سے نظرانداز کرتے ہوئے اپنی پوری توجہ جاوید لطیف کا سماجی بائیکاٹ کرنے پر مبذول رکھی ہوئی ہے۔

موضوعات:



کالم



بس وکٹ نہیں چھوڑنی


ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

ملک کا واحد سیاست دان

میاں نواز شریف 2018ء کے الیکشن کے بعد خاموش ہو کر…