کراچی(نیوز ڈیسک) ایل این جی ٹرمینل آپریٹر نے مائع قدرتی گیس کو گیس میں تبدیل کرنے کے لیے فلوٹنگ اسٹوریج ری گیسی فکیشن یونٹ (ایف ایس آر یو) کی پاکستان آمد کا شیڈول تبدیل کردیا ہے۔ایل این جی کی درآمد کے لیے ٹرمینل آپریٹر کے ساتھ حکومت کے معاہدے کا نفاذ ہونے میں 20 روز باقی رہ گئے، معاہدے کے تحت ایل این جی ٹرمینل کو 31 مارچ تک ایل این جی کی درآمد کے لیے دستیاب ہونا ہے، اگر ٹرمینل تیار نہ ہو تو ٹرمینل آپریٹر پر جرمانہ ہوگا، دوسری صورت میں ٹرمینل مکمل ہونے کے باوجود حکومت ایل این جی درآمد نہ کرسکی تو پھر حکومت ٹرمینل آپریٹر کو یومیہ 2 کروڑ 74لاکھ روپے (2لاکھ 72ہزار ڈالر) جرمانہ ادا کرے گی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ایل این جی کی خریداری کے معاہدے کا مسودہ حتمی شکل اختیار کر چکا ہے تاہم یہ معاہدہ ہونے کے بعد بھی پی ایس او، سوئی سدرن گیس کمپنی، سوئی ناردرن گیس کمپنی اور اوگرا کے درمیان ادارہ جاتی معاہدوں میں مزید 7 سے 10روز لگ سکتے ہیں کیونکہ ایل این جی کی خریداری کے معاہدے کے بعد پاکستان میں ایل این جی کی ادائیگیوں کا طریقہ کار بھی تیار کرنا ہوگا، اس طرح 10روز کی تاخیر کی صورت میں حکومت کو27کروڑ 74لاکھ روپے تک کا نقصان ہوسکتا ہے، نجی ٹرمینل آپریٹر نے پورٹ قاسم پر ایل این جی کی درآمد کے لیے ٹرمینل مکمل ہونے کا باضابطہ اعلان کردیا ہے تاہم حکومت کی جانب سے تاحال ایل این جی کی درآمد کا کوئی معاہدہ نہیں کیا گیا، اس لیے حکومت ٹرمینل آپریٹر کو جرمانہ ادا کرنے کی پابند ہوگی۔ایل این جی کو گیس میں تبدیل کرنے کے لیے پاکستان آنے والے فلوٹنگ اسٹوریج ری گیسی فکیشن یونٹ (ایف ایس آر یو ) کی پاکستان آمد بھی التوا کا شکار ہوگئی ہے، دبئی کی بندرگاہ پر لنگر انداز یہ بحری جہاز پاکستان روانگی کے لیے تیار ہے لیکن حکومت کی جانب سے ایل این جی کی درآمد کے لیے معاہدہ طے نہ کیے جانے کے سبب اس جہاز کی پاکستان آمد بھی موخر کردی گئی ہے، پہلے یہ جہاز 7 مارچ کو پورٹ قاسم کے لیے روانہ ہونا تھا اور 10مارچ تک اس کی پاکستان آمد متوقع تھی تاہم اب ذرائع کا کہنا ہے کہ اینگرو ایلنجی نے حکومت کی جانب سے کوئی پیش رفت نہ ہونے پر جہاز کی روانگی موخر کردی ہے، اب یہ جہاز 15 مارچ کو روانہ ہوگا تاہم معاہدے کے نفاذ سے قبل31 مارچ تک یہ جہاز ہر حالت میں پاکستان پہنچ جائے گا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف ایس آر یو کی روانگی میں تاخیر اور دبئی کی بندرگاہ پر کھڑے رہنے سے ایل این جی ٹرمینل کمپنی کے اخراجات میں اضافہ ہورہا ہے، جتنے روز بھی یہ جہاز دبئی کی پورٹ پر شیڈل سے زائد دنوں تک موجود رہے گا، ایل این جی کی ری گیسی فکیشن چارجز میں یہ اضافی خرچ شامل ہوتا رہے گا، ملک میں پاور سیکٹر کے گردشی قرضے بھی ایل این جی کی درآمد کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں اور بین الاقوامی ڈیلرز پاکستان کو ایل این جی کی سپلائی میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہے ہیں جس کی وجہ گردشی قرضے قرار دیے جارہے ہیں، دوسری جانب گردشی قرضوں کی وجہ سے پاکستان میں کام کرنے والے آئی پی پیز بھی ایل این جی کی ادائیگی کے لیے بیک ٹو بیک ایل سی پر ایگریمنٹ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔اینگرو ایل این جی ٹرمینل( پرائیویٹ) لمیٹڈ کے سی ای او شیخ عمران الحق کا کہنا ہے کہ 135 ملین ڈالر کی خطیر لاگت سے قائم ہونے والا ایل این جی ٹرمینل پورٹ قاسم مکمل طور پر تیار ہے تاہم مائع قدرتی گیس کی درآمد کے لیے حکومتی معاہدے کا انتظار ہے، جیسے ہی حکومت مائع قدرتی گیس کی ترسیل کا معاہدہ کرلے گی ویسے ہی ٹرمینل آپریشنل ہوجائیگا۔ انہوں نے واضح کیا کہ اگرمائع گیس کی سپلائی31 مارچ تک شروع نہیں کی گئی تو معاہدے کی رو سے حکومت صلاحیت چارجز دینے کی مجاز ہوگی۔