اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)اوباما انتظامیہ نے نائن الیون حملوں کے بعد مسلمانوں اور عرب باشندوں پر نظر رکھنے کے لیے شروع کیا گیا پروگرام منسوخ کردیا ۔اس فیصلے کا مقصد نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مسلمانوں کے امریکا داخلے سے قبل سخت اسکروٹنی کے منصوبے کو روکنا ہے ۔امریکی میڈیا کے مطابق یہ پروگرام 2011 میں عملاً روک دیا گیا تھا تاہم مکمل طور پر ختم نہیں ہوا تھا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو خوف تھا کہ ٹرمپ برسر اقتدار آنے کے بعد اسے مسلمانوں کی رجسٹریشن کے لیے دوبارہ شروع کرسکتے ہیں ۔ہوم لینڈ سیکورٹی کے مطابق اس پروگرام کو اب فوری طور پر ختم کردیا گیا ہے ۔ 5 برس پہلے اسے عملاً روک دیا گیا تھا کیونکہ اسے بے سوداور غیر موثر پایا گیا تھا اوراس پروگرام سے سیکورٹی بڑھانے میں کوئی مدد نہیں ملی تھی
ہوم لینڈ سکیورٹی کے ترجمان نیما حکیم نے کہا کہ ’نیشنل سکیورٹی انٹری۔ ایگزٹ رجسٹریشن سسٹم‘ پروگرام جو ’این ایس ای ای آر ایس‘ بھی کہلاتا ہے، 2011 میں معطل کردیا گیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ’پروگرام غیر موثر اور بے کار ثابت ہوا اور اس سے سکیورٹی میں بھی بہتری نہیں آئی، جس کے باعث ڈیپارٹمنٹ اسے باضابطہ طور پر ختم کر رہا ہے۔
دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی سوال کیا گیا کہ کیا وہ ہوم لینڈ سکیورٹی کی طرح مسلمانوں کی رجسٹری کے پروگرام کی حمایت کریں گے، جس کا انہوں نے کوئی واضح جواب نہیں دیا۔ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیم کے کئی ساتھیوں نے بتایا کہ ٹرمپ انتظامیہ اس مردہ پروگرام میں دوبارہ جان نہیں ڈالے گی، حالانکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک مشیر نے ہی اس پروگرام کا خیال پیش کیا تھا۔یہ اعلان اس وقت سامنے آیا جب فیس بْک، ٹوئٹر اور ایپل سمیت کئی ٹیکنالوجی کمپنیاں مختلف نیوز تنظیموں کو یہ بتاچکی ہیں کہ وہ مسلم رجسٹری قائم کرنے کے حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ کی مدد نہیں کریں گی۔
رواں ماہ کے اوائل میں کئی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے ملازمین نے اس آن لائن عہد پر دستخط کیے تھے، جس میں لوگوں کو ان کے مذہب کی بنیاد پر نگرانی اور بڑے پیمانے پر بے دخلی میں معاونت کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کی ڈیٹا رجسٹری کے لیے مدد فراہم نہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا تھا۔اس پروگرام کو ختم کرنے کے اوباما انتظامیہ کے فیصلے کی ناقدین بھی تعریف کر رہے ہیں، جنہوں نے اس پروگرام کو امتیازی قرار دیتے ہوئے اس پر تنقید کی تھی۔
ائن الیون حملوں کے بعد مسلمانوں اور عرب باشندوں پر نظر رکھنے کے لیے شروع کیا گیا
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں