حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ پاؤں سے لنگڑے تھے ۔۔۔ان کے چار بیٹے تھے جو اکثر حضور ﷺ کی خدمت میں بھی حاضر ہوتے اور لڑائیوں میں شرکت بھی کرتے تھے ۔۔۔ غزوہ احد میں عمروبن جموح رضی اللہ عنہ کوبھی شوق پیدا ہوا کہ میں بھی جاؤں لوگوں نے کہا کہ تم معذور ہو۔۔۔ لنگڑے پن کی وجہ سے چلنا دشوا ر ہے ۔۔۔انہوں نے فرمایا ۔۔۔کیسی بری بات ہے کہ میرے بیٹے تو جنت میں جائیں اور میں رہ جاؤں ۔۔۔ بیوی نے بھی ابھارنے کیلئے طعنہ کے طور پر کہا کہ میں تو دیکھ رہی ہوں کہ وہ لڑائی سے بھاگ کر لوٹ آیا ۔۔ ۔عمرورضی اللہ عنہ نے یہ سن کر ہتھیار لیے اور قبلہ کی طرف منہ کر کے دعاء کی اللهم لا تردنی الیٰ اھلی (اے اللہ مجھے اپنے اہل کی طرف نہ لوٹائیے )
اس کےبعد حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی قوم کے منع کرنے کا اور اپنی خواہش کا اظہار کیا اور کہا کہ میں امید کرتاہوں کہ اپنے لنگڑے پیر سے جنت میں چلوں پھروں ۔۔ ۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے تم کو معذور کیا ہے ۔۔۔ تو نہ جانے میں کیا حرج ہے ۔۔۔ انہوں نے پھر خواہش کی تو آپ ﷺ نے اجازت دے دی ۔۔۔ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عمرورضی اللہ عنہ کو لڑائی میں دیکھا کہ اکڑتے ہوئے جاتے تھے اور کہتے تھے کہ خدا کی قسم میں جنت کا مشتاق ہوں ۔۔۔ ان کا ایک بیٹا بھی ان کے پیچھے دوڑا ہوا جاتاتھا ۔۔۔ دونوں لڑتے رہے حتی ٰ کہ دونوں شہید ہوئے۔۔۔
ان کی بیوی اپنے خاوند اور بیٹے کی نعش کو اونٹ پر لاد کر دفن کے لیے مدینہ لانے لگیں تو وہ اونٹ بیٹھ گیا ۔۔۔ بڑی دقت سے اس کو مار کر اٹھایا اور مدینہ لانے کی کوشش کی مگر وہ احد ہی کی طرف کا منہ کرتاتھا ۔۔۔ ان کی بیوی نے حضور ﷺ سے ذکر کیا ۔۔۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ اونٹ کو یہی حکم ہے ۔۔۔ کیا عمرورضی اللہ عنہ چلتے ہوئے کچھ کہہ کر گئے تھے ۔۔۔ انہوں نے عرض کیا کہ قبلہ کی طرف منہ کرکے یہ دعا کی تھی ۔۔۔ اللهم لا تردنی الیٰ اھلی آپ ﷺ نے فرمایا ۔۔۔ اسی وجہ سے یہ اونٹ اس طرف نہیں جاتا۔
اسی کانام ہے جنت کا شوق اور یہی ہے وہ سچا عشق اللہ کا اور اس کے رسول اللہﷺ کا جس کی وجہ سے صحابہ کہاں سے کہاں پہنچ گئے کہ ان کے جذبے مرنے کے بعد بھی ویسے ہی رہتے ۔۔۔ بہت کوشش کی کہ اونٹ چلے ۔۔ ۔ مگر یا تو وہ بیٹھ جاتا یا احد کی طرف چلتاتھا ۔۔۔