واشنگٹن(این این آئی)ایک امریکی انٹیلی جنس تجزیہ کار نے دعوی کیا ہے کہ عراق کے سابق صدر صدام حسین 2003 میں امریکی فوج کے ہاتھوں گرفتاری سے کئی سال قبل ہی ملک کے انتظامی امور اور حکومتی معاملات سے غافل ہو چکے تھے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی مرکزی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کے سابق تجزیہ کار جان نکسن نے کہاکہ یقینا صدام اپنے آخری برسوں میں ناولوں کی تصنیف میں مصروف تھے اور انہوں نے فوج پر کوئی توجہ نہیں دی اور نہ ہی اس بات کی فکر کی کہ ان کے پیروکار کس طرح ملک چلا رہے ہیں۔نکسن نے اپنی کتاب میں جو 27 دسمبر کو بازار میں دستیاب ہو گی ، عراق کے سابق صدر کے حوالے سے بتایا کہ جس وقت امریکی اور برطانوی افواج عراق میں داخل ہوئی ہیں تو اس وقت صدام اس بات سے ناواقف تھے کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے۔
وہ اپنی حکومت کی کارستانیوں سے ناواقف تھے اور ان کے پاس عراق کے دفاع کے حوالے سے کوئی واضح منصوبہ نہیں تھا۔انہوں نے کہاکہ صدام اپنی گرفتاری کے وقت بھی اس طرح سے نخوت اور گھمنڈ کا مظاہرہ کرتے رہے گویا کہ یہ واقعہ پیش ہی نہیں آیا۔ وہ تحقیق کار پر اوپر سے نیچے تک حقارت کی نظر ڈال رہے تھے۔نکسن کے مطابق گرفتاری اور حراست کے وقت بھی وہ خوف اور دہشت پیدا کر رہے تھے۔
نکسن نے پوچھا کہ تم نے اپنے بیٹوں عدی اور قصی کو آخری بار زندہ کب دیکھا تھا؟ صدام نے جواب دیا کہ تم کون ہو ؟ کیا تم لوگوں کا تعلق فوجی انٹیلی جنس سے ؟ جواب دو اور اپنی شناخت ظاہر کرو ؟ ۔اس کے بعد نکسن سے کہا کہ تمہارا انجام ناکامی ہے۔ تم دیکھ لو گے کہ عراق پر حکومت کرنا آسان کام نہیں۔صدام حسین سے جب ان افواہوں کی تصدیق چاہی گئی کہ آیا ان کا سمیرہ نامی بیوی سے کوئی بیٹا ہے جس کا نام علی ہے۔
تو صدام حسین نے تحقیق کار کو جواب دیا کہ اگر میں تم سے کہہ دوں کہ ہاں تو کیا تم لوگ عدی اور قصی کی طرح اس کو بھی قتل کر ڈالو گے؟