لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان ایک اسلامی ملک ہے جس میں اسلام کے احکامات کے مطابق شراب کی تیاری اورپیناحرام ہے لیکن پھربھی پاکستان میں شراب تیار کرنے والی تین فیکٹریوں کو قانونی طور پر ’’72‘‘ مختلف اقسام کی شراب تیار کرنے کی اجازت ہے۔ ان فیکٹریوں کی’’مصنوعات‘‘ سے اقلیتوں کی بجائے عملاً اکثریت ہی مستفیدہو رہی ہے جبکہ شراب کی تیاری اور فروخت سے پنجاب کو سالانہ تین ارب روپے ریونیو اکٹھا ہوتا ہے۔ شراب تیار کرنے کی لائسنس یافتہ تین فیکٹریاں مری بروری راولپنڈی، کراچی انڈس ڈسٹلری اینڈ بروری اور دی کوئٹہ ڈسٹلری کام کررہی ہیں۔ ان میں مری بروری راولپنڈی آٹھ مختلف گروپس کے تحت 36 اقسام، کراچی انڈس ڈسٹلری اینڈ بروری27جبکہ دی کوئٹہ ڈسٹلری11مختلف اقسام کے شراب تیار کرتی ہے۔ پنجاب کے مختلف اضلاع میں 8 بڑے ہوٹلوں جبکہ کراچی میں بڑے ہوٹلوں کے علاوہ 58دکانوں کو بھی شراب کی فروخت کے لائسنس حاصل ہیں۔ حدود آرڈیننس 1979 کے تحت غیر مسلم شہریوں اور غیر ملکیوں کو شراب خریدنے کے لئے لائسنس/پرمٹ جاری کئے جاتے ہیں۔ صوبہ پنجاب میں محکمہ ایکسائز ہر سال تقریباََ 29ہزار افراد کو شراب کے پرمٹ جاری کرتا ہے۔ شراب کی تیاری اور فروخت سے پنجاب کو لائسنس فیس، لائسنس تجدید فیس، مینوفیکچرنگ فیس، ٹرانسپورٹیشن، سلی ہیڈ، ونڈ فیس اور پرمٹ فیس کی مد میں تین ارب روپے ریونیو اکٹھا ہوتا ہے۔ پاکستان میں آ ئین کے تحت صرف پرمٹ رکھنے والے غیر مسلم شہریوں اور غیر ملکیوں کو ہی شراب کی فروخت کی اجازت ہے۔ مگر صورتحال یہ ہے کہ غیر مسلموںکے لئے شراب کی اجازت کی آئینی آڑ میں ان فیکٹریوں میں تیار ہونے والی شراب سے محکمہ ایکسائز کی ملی بھگت سے ’’اکثریت‘‘ ہی مستفید ہو رہی ہے۔ محکمہ ایکسائز، پولیس اور دیگر سرکاری محکمے ہوٹلوں سے شراب کی کھلے عام خرید وفروخت پر اپنا حصہ وصول کر کے چپ سادھے ہوئے ہیں۔عوامی حلقوں نے اس دوغلی پالیسی پرشدید احتجا ج کرتے ہوئے شراب کی مکمل بندش کامطالبہ کیاہے ۔