لاہور( این این آئی)پاکستان تحریک انصاف کے تیس اکتوبر کو وفاقی دارالحکومت میں احتجاج کو روکنے کیلئے اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کئے جانے کا امکان ہے ۔ذرائع کے مطابق دائر کی جانے والی درخواست میں پی ٹی آئی کے اس سے قبل اسلام آباد کی طرف مارچ اور دھرنے کے بعد کارکنوں کی طرف سے پیدا کی جانے والی صورتحال کا حوالہ اور خصوصاًبھارت کیساتھ کشیدگی کے ماحول کے باعث پی ٹی آئی کو ایسے کسی بھی اقدام سے روکنے کی استدعا کی جائے گی ۔
نجی ٹی وی پروگرام میں سینئر صحافی و اینکر پرسن نے تہلکہ خیز انکشافات کر دیئے۔ نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے اینکر پرسن نے کہا کہ عمران خان کا 30 اکتوبر کو آنے والا دھرنا تیاریوں کے حوالے سے پچھلے تمام دھرنوں سے بڑا ہوگا اور یہ ایک تاریخی دھرنا ہوگا۔ اینکر پرسن احمد قریشی نے نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 30 اکتوبر دھرنا تمام پچھلے دھرنوں سے بہت بڑا ہوگا اور اس کی اطلاعات تحریک انصاف سے نہیں بلکہ دیگر ذرائع سے آ رہی ہیں۔ احمد قریشی نے کہا کہ عمران خان کے دھرنے میں دیگر جماعتیں بھی شرکت کریں گی اور اس بار 30 اکتوبر کے دھرنے سے 3 دن قبل مذہبی سیاسی جماعتوں پر مشتمل دفاع پاکستان کونسل اسلام آباد دھرنے کیلئے آ جائے گی اور دھرنے میں حافظ سعید اچانک شریک ہوں گے۔ احمد قریشی نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف اور دفاع پاکستان کونسل میں کوئی چیز مشترک نہیں سوائے ایک بات کے، کہ تینوں جماعتیں کشمیر کے حوالے سے وزیر اعظم نواز شریف کی پالیسیوں سے بالکل مطمئن نہیں اور وہ اس معاملے پر ایک ہوکر نواز شریف حکومت کو بہت ٹف ٹائم دے سکتے ہیں۔ احمد قریشی نے کہا کہ 30 اکتوبر کے دھرنے میں حافظ سعید کی شمولیت سے حکومت اور خاص طور پر بھارت کی نیندیں حرام ہو جائیں گی۔ واضح رہے کہ بھارت حافظ سعید کے حوالے سے انتہائی جارحانہ موقف کا حامل ہے اور امریکہ و بھارت کی جانب سے کئی بار یہ مطالبہ کیا جا چکا ہے کہ پاکستانی حکومت حافظ سعید کیخلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں گرفتار کرے اور ہمارے حوالے کرے۔ احمد قریشی کے مطابق دوسری جانب جماعۃ الدعوۃ کے سربراہ اور دفاع پاکستان کونسل کی لیڈ حافظ سعید کے ہاتھ میں ہے۔ حافظ سعید کی قیادت میں 30 اکتوبر کو دھرنے میں دفاع پاکستان کونسل بھرپور انداز میں شرکت کر سکتی ہے جس سے حکومتی مشکلات میں شدید اضافہ ہو جائے گا۔ تاہم اس بارے میں دفاع پاکستان کونسل کی جانب سے ابھی تک کوئی واضح موقف سامنے نہیں آ سکا۔