اسلام آباد (آئی این پی) قومی اسمبلی میں ارکان نے مولانا فضل الرحمن کی جانب سے فاٹا اصلاحات پر کی گئی تقریر پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک انتہائی اہم دور سے گزر رہا ہے مولانا فضل الرحمن نے متنازعہ تقریر کی‘ مولانا فضل الرحمن نے یہ کہہ کر ہم فاٹا میں کشمیر سے زیادہ ظلم کرتے ہیں بھارت کو پاکستان کے خلاف باتیں کرنے کا جواز فراہم کیا‘ کابل کو جہلم سے موازنہ کرکے کابل کا مقدمہ پیش کیا کشمیر کمیٹی پر اربوں روپے خرچ کئے جارہے ہیں لیکن کارکردگی صفر ہے‘ مولانا فضل الرحمن کی گفتگو نے واضح طور پر بھارتی موقف کو سپورٹ کیا ان کی تقریر افسوسناک ہے ان کو وضاحت دینی چاہئے‘ مفادات کی سیاست کرنے والوں کے چہرے بے نقاب ہونا چاہئیں۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی علی محمد خان‘ غلام سرور خان‘ جمشید دستی‘ غوث بخش مہر‘ سلمان بلوچ‘ شاہ جی گل آفریدی نے ایوان میں نکتہ اعتراض پر گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے رکن قومی اسمبلی شاہدہ رحمانی نے کہا کہ اسمبلی میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے نہ ترقیاتی فنڈز دیئے جاتے ہیں۔ حج کوٹے میں پہلے چار سے کم کرکے دو نام مانگے گئے بعد میں کہا کہ مخصوص نشستوں پر کوئی کوٹہ مختص نہیں ہے اس پر احتجاج کرتی ہوں۔ علی محمد خان نے کہا کہ آئین اور ملک سے وفاداری سب پر لازم ہے گزشتہ اجلاس میں ایک محترم شخصیت نے یہاں متنازعہ تقریر کی پاکستان انتہائی اہم دور سے گزر رہا ہے۔ پاکستان واحد اسلامی ایٹمی قوت ہے جو غیر مسلم قوتوں کو نہیں بھاتی ملک آئین کے تحت سول لوگوں نے چلانا ہے۔ ملک میں ضرب عضب چل رہا ہے۔ہندوستان میں تحریک آزادی چل رہی ہے۔بھارت ظلم و ستم کررہا ہے ان حالات میں پاک فوج کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے خطاب کیا کہ ہم فاٹا میں کشمیر سے زیادہ ظلم کرتے ہیں۔ بحیثیت کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ایسی بات کرکے بھارت کو باتیں کرنے کا جواز فراہم کیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا فاٹا میں پاکستان کا کبھی جھنڈا جلایا جاتا ہو دوسری بات کہی کہ ہم سرینگر کی بات کریں گے تو افغانستان جہلم کی بات کرے گا ضرب عضب فاٹا کے عوام کے خلاف ہے دہشت گردی کے خلاف نہیں ہے۔ مولانا فضل الرحمن کیا کابل کا مقدمہ پارلیمنٹ میں پیش کررہے ہیں ایف سی آر کو کالا قانون کہا۔
ثمن جعفری نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کو نو ایکشن پلان بننے سے بچایا جائے۔ کالعدم تنظیموں کو کراچی میں کام کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ طلال چوہدری نے کہا کہ ایوان میں کھل کر بات کرنے سے روکنا نہیں چاہئے، زبردستی غدار بنانے سے روکنا چاہئے، آئین سے اگر کوئی حلف لیتے ہیں اور نیک نیتی سے بات کرتا ہے تو غلط رنگ نہ دیا جائے ،کوئی ادارہ مقدس گائے نہیں ہے، سب کی ایوان میں بات کریں گے۔ اداروں کی بہتری کے لئے بات کی جائے گی، کھل کر بات کرنی چاہئے۔ حب الوطنی پر شک نہیں کرنا چاہئے جو خود منہ سے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں ان سے زبردستی منہ سے بات نہ کرے۔ نعیمہ کشور نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی سنجیدگی کا عالم ہے کہ فاٹا اصلاحات پر بحث ہورہی ہے، ان کا قائد ایوان سے غیر حاضر ہے اور کشمیر پر بات ہورہی تھی تو ان کا قائد مری میں تفریح کررہا تھا اور سلفیاں بنا رہا تھا۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ بعض انگریزوں کے تعزیراتی قوانین ختم کریں۔ ضرب عضب کے حوالے سے مولانا فضل الرحمن کے بیان کو غلط رنگ دیا گیا۔ ان کے قائد جب عام زبان استعمال کرتا ہو ان سے بھی یہی توقع ہے۔ ڈپٹی سپیکر نے نعیمہ کشور کی جانب سے علی محمد خان کے لئے کل دا منڈا کے الفاظ حذف کرا دیئے۔ نعیمہ کشور نے کہا کہ ایک کل کے لیڈر نے اٹھ کر ایک بڑے بین الاقوامی لیڈر کے خلاف بات کی۔ انہوں نے ایوان سے علامتی واک آؤٹ کیا۔ جمشید دستی نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہیں کمیٹی پر بہت زیادہ فنڈز خرچ ہوتا ہے لیکن آج تک آڈٹ نہیں ہوا۔ اربوں روپے مولانا فضل الرحمن نے کھائے ہیں اور کارکردگی زیرو ہے۔ قیام پاکستان کے بعد اب محمود خان اچکزئی افغانستان کی بات کیوں کررہے ہیں۔ محمود خان اچکزئی مراعات لے رہے ہیں حکومت ان کی سپورٹ کرتی ہے پاکستان کو مودی سے نہیں مودی کے یار سے خطرہ ہے پارلیمنٹ میں بھارت کے یار بیٹھے ہیں ان کے خلاف ایکشن کیا جائے۔ ڈپٹی سپیکر نے بھارت کے یار کا لفظ حذف کردیا۔ غلام سرور خان نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن نے گفتگو سے واضح طور پر بھارتی موقف کو سپورٹ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح کشمیر میں ہوتا ہے اس طرح فاٹا میں ہوتا ہے تین دفعہ مولانا فضل الرحمن کشمیر کمیٹی کے چیئرمین بن چکے ہیں لیکن کارکردگی نظر نہیں آتی۔ قائدین کو خیال رکھنا چاہئے کہ ان کے الفاظ سے ملک کی سالمیت کو نقصان نہ پہنچے۔ سلمان بلوچ نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن نے تقریر میں کابل کو جہلم اور فاٹا کو کشمیر سے تشبیہ دی ہم اگر کراچی میں ظلم و ستم کی بات کریں تو ہمیں غداری کے فتوے لگتے ہیں کراچی کا میئر آج جیل میں ہے ان مقدمات میں جس کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہمارے تحفظات دور کئے جائیں۔ غوث بخش مہر نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن نے اگر ایسی باتیں کی ہیں تو افسوسناک ہیں ان کو آکر وضاحت کرنی چاہئے۔
شاہ جی گل آفریدی نے کہا کہ پارلیمنٹ عوامی عدالت ہے اس میں کھل کر بات ہونی چاہئے۔ مفادات کی سیاست کرنے والوں کے چہرے بے نقاب ہونے چاہئیں اگر کوئی مفادات کی سیاست کرے گا تو ایسے ہی بے نقاب ہوگا جس طرح آج ہوا۔ کیپٹن (ر) صفدر نے کہا کہ ایک وقت میں تاثر تھا کہ سیاست دان کرپشن کرتے ہیں آج سیاست دان تنخواہوں کو رو رہے ہیں تنخواہوں میں گزارا نہیں ہورہا فاٹا میں پولیٹیکل ایجنٹس کروڑوں کی کرپشن کی۔ ستر فیصد مہنگے پلاٹس بیوروکریٹس کے ہیں۔ فاٹا میں کرپشن کرنے والوں کی تحقیقات پر کمیٹی بنی چاہئے۔ فاٹا میں کرپشن کرکے پلازے اور کوٹھیاں بنا رہے ہیں۔ 2005 میں حرام کی کمائی والے پلازے گر گئے حلال والے کھڑے رہے۔ ایماندار بیوروکریٹس کو پروموشن نہیں ملتی۔ سیاستدانوں نے ملک کو چلایا ہے کمیٹی بنا کر جو آج بابو بن کر بیٹھے ہیں اور کرپشن کرتے ہیں ملک کو لوٹے ہیں۔ ایاز سومرو نے کہا کہ آج کیپٹن صدر نے جو سچ بولا اس پر دل خوش ہوگیا ہے کشمیر پر آج قوم متحد ہے اس پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے۔ کرپٹ افسروں کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ جاوید لطیف نے کہا کہ اگر جماعت کے قائدین کے خلاف بری لگتی ہے لیکن حضور? کا نام احترام سے نہ لیا جائے اس کو روکنا چاہئے۔ بتایا جائے یہودی کی گود میں پلنے والا شخص مسلمان کہلائے گا۔ غیر مسلم ایک شخص طلاق کے بعد یہودی کے گھر جاتا ہے دفاعی لحاظ سے پاکستان کے تین محسن ہیں ذوالفقار علی بھٹو‘ ڈاکٹر عبدالقدیر اور میاں نواز شریف۔ پاکستان کے محسنوں کا نام لیتے وقت زبان کو لگام دینی چاہئے۔
’’پاکستان کو کشمیر پر بات کرنے کا کوئی حق نہیں‘‘ ارکان اسمبلی مولانا فضل الرحمن پر برس پڑے
4
اکتوبر 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں