
آپ فجی کی مثال بھی لیں مگر فجی کی طرف جانے سے پہلے میں آپ کو TAFE کے بارے میں بتاتا چلوں‘ آسٹریلیا میں تعلیم دو حصوں میں تقسیم ہے‘ ٹیکنیکل ایجوکیشن اور ہائیر ایجوکیشن‘ سکول بارہ جماعتوں تک ہیں‘ طالب علم کے پاس بارہ جماعتوں کے بعد دو آپشن ہوتے ہیں‘ یہ براہ راست یونیورسٹی چلا جائے یا پھر یہ ٹیکنیکل ایجوکیشن کی طرف نکل جائے‘ حکومت نے ٹیکنیکل ایجوکیشن کےلئے ٹیکنیکل اینڈ فردر ایجوکیشن( TAFE) کے نام سے ایک ادارہ بنا رکھا ہے‘ یہ ادارہ ملک میں ڈپلومہ کورسز کرواتا ہے‘ حکومت نے TAFE کو کامیاب بنانے کےلئے ملک بھر میں سرکاری اور پرائیویٹ نوکریوں کےلئے لائسنس لازمی قرار دے دیئے ہیں‘ لائسنس کےلئے ڈپلومہ ضروری ہے اور ڈپلومہ کےلئے کورس اور یہ کورس TAFE کرواتا ہے‘ آپ فرض کیجئے‘ آپ آسٹریلیا میں کسی کے گھر ٹونٹی ٹھیک کرنے جاتے ہیں‘ مالک مکان آپ سے پہلے پلمبرنگ کا لائسنس مانگے گا‘ آپ ٹونٹی کو ہاتھ لگانے سے پہلے لائسنس دکھائیں گے اور اس لائسنس کا مطلب ہوگا آپ باقاعدہ TAFE کی چھلنی سے نکلے ہوئے کاری گر ہیں‘ آپ کو نرسنگ اور کمپاﺅنڈر کےلئے بھی کورس کرنا پڑتا ہے‘ گھاس کاٹنے کےلئے بھی‘ چپڑاسی کےلئے بھی‘ سیکورٹی جاب کےلئے بھی اور اکاﺅنٹس کی دیکھ بھال کےلئے بھی کورسز ضروری ہیں‘ یہ ادارہ سال دو سال بعد کورسز تبدیل کرتا رہتا ہے‘ نئے کورس پرانے ورکرز کےلئے بھی لازمی ہوتے ہیں تا کہ پرانے ورکروں کو بھی نئی ٹیکنالوجی سے متعارف کرایا جا سکے‘ آسٹریلیا میں تعمیرات کا سسٹم یورپ سے زیادہ سخت ہے‘ آپ آرکی ٹیکٹ اور کونسل کی اجازت کے بغیر اپنے لان میں کھدائی تک نہیں کر سکتے‘ آرکی ٹیکٹ مکان بنانے سے پہلے تمام ڈرائنگز کونسل میں جمع کراتا ہے‘ یہ فائل کی شکل میں ہوتی ہیں اور اس فائل میں پلمبرنگ‘ بجلی‘ کنکریٹ‘ پینٹ‘ گیس اور اینٹ کا کام کرنے والے تمام مستریوں کے نام‘ پتے‘ ٹیلی فون اور لائسنس کی کاپیاں لگی ہوتی ہیں‘ یہ تمام لوگ سات سال تک اپنے کام کے ذمہ دار ہوتے ہیں‘ کام میں کسی قسم کی گڑ بڑ کے بعد ان لوگوں کے لائسنس منسوخ ہو جاتے ہیں اور یہ بے روزگاری بھگتنے پر مجبور ہو جاتے ہیں‘ ڈاکٹروں اور انجینئرز کو بھی خود کو ”اپ ڈیٹ“ رکھنے کےلئے کورسز کرنا پڑتے ہیں‘ حکومت نوکری اور کام کرنے والے لوگوں کو بھی ڈپلوموں کی سہولت فراہم کرتی ہے‘
ملک بھر میں ہزاروں پرائیویٹ ٹیکنیکل ادارے ہیں‘ یہ ادارے ”آر ٹی او“ کہلاتے ہیں‘ یہ آر ٹی اوز ملازمت پیشہ لوگوں کو مفت کورس کی ترغیب دیتے ہیں‘ یہ ورکرز کو کورس کراتے ہیں‘ سر ٹیفکیٹ اور ڈپلومہ جاری کرتے ہیں اور کورس کے تمام اخراجات حکومت آر ٹی او کو ادا کرتی ہے‘ یہ آر ٹی اوز بھی آگے چل کر TAFE سے منسلک ہوتے ہیں چنانچہ سکول کے بعد آسٹریلین نوجوانوں کے پاس دو آپشن ہوتے ہیں‘ یہ اعلیٰ تعلیم کےلئے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیں یا پھر ٹیکنیکل ڈپلومہ کر کے عملی زندگی میں آ جائیں‘ نوجوانوں کی زیادہ تر تعداد دوسرا آپشن پسند کرتی ہے‘ یہ عملی زندگی کو اعلیٰ تعلیم پر فوقیت دیتے ہیں‘ ہم بھی یہ ماڈل کاپی کر سکتے ہیں‘ ہم سکولوں کو ایف اے یا ایف ایس سی تک وسیع کریں‘ بارہ جماعتوں کو لازمی قرار دیں‘ ملک کے ہر بچے کےلئے ایف اے تک تعلیم ضروری ہو‘ ملک بھر کے تمام کالجوں کو ٹیکنیکل اداروں میں تبدیل کر دیں اور سکول کے بعد طالب علموں کو دو آپشن دیں‘ یہ براہ راست یونیورسٹی چلے جائیں یا پھر یہ ٹیکنیکل ڈپلومہ کریں‘ ہم ڈپلومہ کو باعزت بنانے کےلئے ان کے نام تبدیل کر دیں‘ حکومت میڈیکل کے شعبوں میں ڈپلومہ لینے والوں کو اسسٹنٹ ڈاکٹر‘ انجینئرنگ کے شعبوں میں ٹیکنیکل ایجوکیشن حاصل کرنے والوں کو اسسٹنٹ انجینئر اور اکاﺅنٹس کے شعبوں میں ڈپلومہ ہولڈرز کو اسسٹنٹ اکاﺅنٹنٹ ڈکلیئر کر دے‘ اس سے شعبوں کی عزت میں بھی اضافہ ہو گا اور کام کرنے والوں کا اعتماد بھی بڑھے گا‘ حکومت اس کے ساتھ ہی ملک میں ہر قسم کے کام کےلئے لائسنس بھی لازمی قرار دے دے اور لائسنس کےلئے ڈپلومہ بھی ضروری ہو‘ اب سوال پیدا ہوتا ہے ہم ان ”چھوٹوں“ کا کیا کریں گے جو سکول نہیں جا سکے‘ جنہوں نے پانچ سال کی عمر میں استاد کی مار کھانا شروع کی اور جو مار کھاتے کھاتے استاد بن گئے‘ ان بے چاروں کے پاس تجربہ ہے لیکن تعلیم نہیں‘ یہ لوگ بھی آسٹریلین ماڈل سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں‘ حکومت ملک میں ہزاروں کی تعداد میں ”آر ٹی او“ بنوا ئے‘ یہ پرائیویٹ ادارے ہوں اور یہ ملک بھر کے چھوٹوں کو چھوٹے چھوٹے کورسز کروائیں‘ انہیں لکھنا پڑھنا اور دستخط کرنا بھی سکھائیں اور انہیں ٹیکنیکل تعلیم بھی دیں‘ یہ ایک طویل کام ہے لیکن ہم اگر آج یہ کام شروع کر دیں تو مجھے یقین ہے ہم پانچ سال میں ملک کا سسٹم بدل سکتے ہیں‘ ہم نے بس ٹیکنیکل ایجوکیشن کی ڈیمانڈ پیدا کرنی ہے اور یہ ڈیمانڈ صرف لائسنس لازمی قرار دینے سے پیدا ہو جائے گی اور اس کے بعد وقت گزرنے کے ساتھ حالات تبدیل ہوتے چلے جائیں گے‘ ہم اب آتے ہیں فجی کی طرف‘ فجی نے ملک بھر میں آسٹریلیا کی مدد سے TAFE کے ادارے قائم کر دیئے ہیں‘ یہ ادارے فجی کے نوجوانوں کو آسٹریلین معیار کے مطابق ٹریننگ دیتے ہیں‘ امتحان بھی ٹیف لیتا ہے‘ یہ ان نوجوانوں کو ڈپلومہ جاری کرتا ہے اور یہ نوجوان ڈپلومہ کی بنیاد پر آسٹریلین شہریت اپلائی کر دیتے ہیں اور یوں یہ باعزت طریقے سے آسٹریلیا پہنچ جاتے ہیں‘ ہم بھی ٹیف کے ساتھ اس قسم کا بندوبست کر سکتے ہیں‘ یہ ملک اور عوام دونوں کےلئے بہتر ہوگا۔


















































