بدھ‬‮ ، 23 اکتوبر‬‮ 2024 

میں بھی ایسا ہی تھا

datetime 27  جون‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

’’میں بھی ایسا ہی تھا‘‘ اس نے قہقہہ لگایا‘ کرسی سے اٹھا اور باہر نکل گیا‘ ڈاکٹر حیرت سے کبھی مجھے دیکھتا تھا‘ کبھی آئینے میں اپنی شکل دیکھتا تھا‘ کوٹ کا کالر درست کرتا تھا اور خفت مٹانے کیلئے مصنوعی ہنسی ہنسنے کی کوشش کرتا تھا‘ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی میں اس صورتحال پر کیا رسپانس دوں‘

میں دونوں کے درمیان پھنس گیا ‘ یہ دونوں اپنی اپنی جگہ درست تھے‘ یہ دونوں اپنے اپنے شعبے کے ماہر ہیں اور میں دونوں کا دل سے احترام کرتا ہوں۔ڈاکٹر صاحب نفسیات دان ہیں‘ یہ باڈی لینگوئج کے ماہر ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے انہیں انسانوں کو بھانپنے کا ہنر دے رکھا ہے‘ یہ لوگوں کی شکل دیکھ کر ان کے موڈز‘ ان کی گھریلو زندگی اور ان کی صحت کا اندازا لگا لیتے ہیں‘ میں ان کی مہارت کے بے شمار مظاہرے دیکھ چکا ہوں‘ مثلاً انہوں نے مجھے 2006ء میں بتا دیا تھا محترمہ بے نظیر بھٹو بڑی تیزی سے موت کی طرف بڑھ رہی ہیں‘ میں نے اس وقت اس بات پر یقین نہیں کیا تھا لیکن جب 27دسمبر 2007ء کو محترمہ بے نظیر شہید ہوئیں تو میں ان کی آبزرویشن کا قائل ہو گیا‘ میں نے ان سے آبزرویشن کی وجہ پوچھی تو انہوں نے اطمینان سے جواب دیا میں محسوس کر رہا تھا محترمہ بے خوف ہوتی جا رہی ہیں‘ یہ جلا وطنی‘ مصائب اور مہربانوں کی بے وفائیوں سے تنگ آ چکی ہیں اور انہوں نے آخری لڑائی لڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے‘ مجھے ان کے چہرے پر ’’آر یا پار‘‘ قسم کی کیفیات دکھائی دے رہی تھیں لہٰذا مجھے محسوس ہوا ان کا فیصلہ انہیں موت کی طرف لے جائے گا ۔ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے درمیان مری ڈکلیریشن ہوا تو ڈاکٹر صاحب نے پیشن گوئی کی

یہ معاہدہ جلد ٹوٹ جائے گا۔ میں نے وجہ پوچھی تو ڈاکٹرصاحب نے جواب دیا میں نے آصف علی زرداری کو کبھی مسکراتے نہیں دیکھاتھا لیکن یہ معاہدے کے درمیان مسلسل مسکرا رہے تھے‘ یہ مسکراہٹ مصنوعی تھی اور مجھے محسوس ہوتا تھا یہ بہت جلد یہ معاہدہ توڑ دیں گے۔ ڈاکٹر صاحب نے 2009ء میں پیشن گوئی کی تھی افتخار محمد چودھری اور ان کے جج حکومت کے دباؤ میں نہیں آئیں گے‘ ڈاکٹر نے اس کی وجہ 2007ء کی تحریک بتائی تھی‘

 

ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا جج 2007ء میں اپنی عوامی قوت دیکھ چکے ہیں‘ یہ اب خود کو کبھی اس پوائنٹ پر نہیں لے جائیں گے جہاں عدلیہ کو دوبارہ نظریہ ضرورت کی گالیاں پڑنے لگیں‘ ڈاکٹر نے ایک سال پہلے پیشن گوئی کر دی تھی عدلیہ حکومت کو رخصت نہیں کرے گی لیکن حکومت خود رخصت ہوجائے گی اور یہ فوج اور عدلیہ کو اپنی رخصتی کا ذمہ دار قرار دے گی۔ ڈاکٹر نے 2010ء کے شروع میں بتا دیا تھا

میاں نواز شریف اسمبلیوں سے استعفے نہیں دیں گے‘ میں نے وجہ پوچھی تو ڈاکٹر صاحب نے بتایا میاں نواز شریف جب بھی استعفوں کی بات کرتے ہیں ان کی آنکھیں ان کی زبان کا ساتھ نہیں دیتیں اور ڈاکٹر صاحب نے 2010ء ہی میں پیشن گوئی کی تھی جنرل پرویز مشرف اس وقت تک پاکستان نہیں آئیں گے جب تک امریکا‘ سعودی عرب اور فوج انہیں گارنٹی نہیں دے گی۔ ڈاکٹرصاحب کی اس پیشن گوئی کا ذریعہ بھی

جنرل پرویز مشرف کی باڈی لینگوئج تھی‘ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا میڈیا جب بھی جنرل مشرف سے پاکستان واپسی کے بارے میں سوال کرتا ہے جنرل صاحب کا لہجہ گڑبڑا جاتا ہے اور لہجے کی یہ تبدیلی ان کی کمزوری کو ثابت کرتی ہے۔ پرویز مشرف کو جس دن گارنٹی مل جائے گی یہ اپنی بات کا آغاز ہی واپسی سے کریں گے ‘ وغیرہ وغیرہ لہٰذا میں جانتا ہوں ڈاکٹر صاحب شخصیات کو بھانپنے میں ماہر ہیں‘

میں نے آج تک ان کی کوئی پیشن گوئی غلط ہوتے نہیں دیکھی جبکہ ان کے مقابلے میں دوسرے صاحب بھی بڑے باکمال انسان ہیں۔یہ ایک عجیب انسان ہے‘ یہ اپنے خاندان کی تاریخ میں سکول جانے والا پہلا بچہ تھا‘ اس کے خاندان میں تعلیم کا رواج نہیں تھا‘ یہ بچپن میں صحت کے لحاظ سے بھی کمزور تھا‘ اس کے والدین اسے لوگوں سے چھپا کر رکھتے تھے‘ ڈاکٹروں اور حکیموں کا خیال تھا یہ زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ سکے گا‘

یہ اعتماد کی کمی کا شکار بھی تھا‘ یہ دوسروں کے سامنے بات نہیں کر سکتا تھا‘ یہ سکول اور کالج کا نالائق ترین طالب علم بھی تھا لیکن اس کے باوجود اس نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی‘ یہ آج صحت مند زندگی بھی گزار رہا ہے اور لوگ اس کی کامیابی کو رشک کی نظر سے بھی دیکھتے ہیں‘ یہ آج اس قدر بااعتماد ہے کہ یہ مختلف ملکوں میں لیکچر دیتا ہے اور لوگ باقاعدہ قیمت ادا کر کے اس کا لیکچر سنتے ہیں‘

یہ ایک کامیاب بزنس مین بھی ہے‘ اس نے کروڑوں روپے کمائے‘ یہ کلچرڈ اور مہذب شخص بھی ہے‘ لوگ اس کی حس جمال کی تعریف کرتے ہیں‘ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں اس نے اپنی زندگی کی ہر خامی ‘ ہر کمزوری کو اپنی طاقت میں تبدیل کیا اور دیکھنے والوں کو حیران کر دیا‘ یہ حقیقتاً آہنی اعصاب کا مالک شخص ہے اور ہم سب ہمیشہ اس جیسا بننا چاہتے ہیں چنانچہ مجھے یہ بھی ٹھیک لگ رہا تھا۔ میں اب مسئلے کی طرف آتا ہوں۔

میرے سیلف میڈ مہربان کا چھوٹا بیٹا ذرا سا ’’سلو‘‘ تھا‘ یہ دس سال کاہو چکا تھا لیکن اسے بولنے میں پرابلم ہوتی تھی‘ یہ پورا فقرہ نہیں بول پاتا تھا‘ اس میں اعتماد کی کمی بھی تھی‘ یہ لوگوں کو فیس نہیں کر پاتا تھا‘ یہ جسمانی لحاظ سے بھی لاغر تھا‘ ہم اس کی باقاعدہ پسلیاں گن سکتے تھے‘ یہ کھانے پینے میں بھی ’’چوزی‘‘ تھا‘ یہ انڈا‘ دودھ اور فروٹ نہیں کھا سکتا تھا اوریہ دس سال کی عمر میں بول بستری کا بھی شکار تھا‘ میرے دوست کا خاندان بچے کیلئے انتہائی پریشان تھا‘

میں اسے اور اس کے بچے کو نفسیات دان کے پاس لے گیا‘ نفسیات دان دو گھنٹے تک بچے کے ساتھ رہا‘ اس نے بچے کے ٹیسٹ کرائے اور اس کی پرانی ہسٹری بھی دیکھی‘ اس تمام تر مطالعے اور مشاہدے کے بعد ڈاکٹر کا کہنا تھا یہ بچہ ابنارمل ہے‘ یہ دماغ کی ایک ایسی بیماری کا شکار ہے جس میں مریض کی لرننگ کا عمل ’’سلو‘‘ ہو جاتا ہے‘ یہ نارمل انسانوں کی طرح چیزیں نہیں سیکھ سکتا‘ یہ بچہ بھی عام بچوں کی طرح نہیں بول سکے گا‘

یہ کھیل کود بھی نہیں سکے گااور یہ خود مختار زندگی بھی نہیں گزار سکے۔ ڈاکٹر نے ڈرتے ڈرتے یہ بھی بتایا‘ دنیا میں ایسے بچوں کی عمر زیادہ لمبی نہیں ہوتی‘ یہ زیادہ سے زیادہ پچیس سال تک زندہ رہتے ہیں۔ صاحب نے اطمینان سے یہ بات سنی‘ قہقہہ لگایا اور بولا ’’میں بھی بچپن میں ایسا ہی تھا‘‘ اس نے ڈاکٹر کے ساتھ ہاتھ ملایا‘ دروازہ کھولا اور باہر نکل گیا‘ اس کا بیٹا باہر بیٹھا تھا‘ اس نے بچے کو گلے لگایا‘

اس کو گود میں اٹھایا اور کلینک سے باہر نکل گیا‘ ڈاکٹر صاحب اس کے اس رویے پر حیران تھے‘ میں نے ان کو تسلی دی اور ان سے کہا ’’دنیا میں ہر بات ‘ ہر فیصلہ قطعی نہیں ہوتا‘ یہ شخص اس رویے میں حق بجانب تھا کیونکہ یہ جب چھوٹا تھا تو اس وقت کے ڈاکٹروں اور حکیموں نے اس کے بارے میں بھی وہی رائے دی تھی جس قسم کی فائنڈنگ آپ نے اس کے بچے کے بارے میں دی‘

یہ شخص اگر کسی سپورٹ کے بغیر نارمل بلکہ ایکسٹر انارمل زندگی گزار سکتا ہے‘ یہ اپنی نفسیاتی اور جسمانی کمزوری پر قابو پا سکتا ہے تو اس کا بیٹا ایسا کیوں نہیں کر سکتا؟‘‘ ڈاکٹر صاحب نے اثبات میں سر ہلایا‘میں نے ان سے عرض کیا’’ ڈاکٹروں نے آئین سٹائن کو بھی ابنارمل بچہ ڈکلیئر کر دیا تھا‘ یہ بھی سلو تھا‘ اس نے بھی سکول لیٹ جانا شروع کیا تھا‘ یہ بھی بھاگ دوڑ نہیں سکتا تھا‘ یہ بھی سکول کا نالائق طالب علم تھا

اور یہ بھی مرغی کے انڈوں پر بیٹھ کر سوچتا تھا میں اگر انڈو ں پر بیٹھوں گا تو ان سے کیا نکلے گا لیکن یہ آئین سٹائن بعد میں دنیا کا سب سے بڑا دماغ ڈکلیئر ہوا۔ آج جدید فزکس کا اسی فیصد کریڈٹ آئین سٹائن کو جاتا ہے‘ آئین سٹائن کیسا شخص تھا اس کا اندازا آپ صرف ایک واقعہ سے لگالیجئے‘ آئین سٹائن نے 1905ء میں اضافت کا نظریہ دیا تھا‘ یہ دس سال تک اس فارمولے کی تشریح کرتا رہا

لیکن پوری دنیا میں صرف چار لوگ اس فارمولے کو سمجھ سکے‘ آئین سٹائن اس قدر محبوط الحواس شخص تھا‘ یہ ایک دن پیدل جا رہا تھا‘ راستے میں کسی شخص نے اسے روک کر باتیں کرنا شروع کر دیں‘ گفتگو کے دوران اس کا رخ بدل گیا‘ یہ اس طرف چل پڑا جس طرف سے یہ آیا تھا‘ یہ تھوڑی دیر چلنے کے بعد کنفیوژ ہو گیا‘ اس نے اس شخص کو آواز دی‘ پاس بلایا اور اس سے کہا ’’تم مجھے بس اتنا بتا دو میں اس طرف سے آ رہا تھا

یا اس طرف سے‘‘ اجنبی نے ہنس کر جواب دیا ’’جناب اس سے کیا فرق پڑے گا‘‘ آئین سٹائن نے کہا ’’بڑ افرق پڑتا ہے‘ شمال کی طرف میرا گھر ہے اور جنوب کی طرف دفتر‘ میں اگر شمال سے آرہا تھا تو اس کا مطلب ہے میں گھر سے کھانا کھا کر نکلا ہوں اور اگر میں جنوب سے آ رہا تھا تو اس کا مطلب ہے میں بھوکا ہوں اور مجھے فوری طور پر کھانا کھانا چاہئے‘‘۔ آپ آئین سٹائن کا جواز دیکھئے‘ کیا

آپ یہ جواز سن کر اس شخص کو نارمل کہہ سکتے ہیں‘ یہ پاگل پن کی تمام تعریفوں پر پورا اترتا ہے لیکن یہ دنیا کا سب سے بڑا دماغ تھا۔ آپ سٹیفن ہاکنگ کو دیکھئے‘ یہ شخص پورے جسم میں پلکوں کے سوا کسی عضو کو حرکت نہیں دے سکتا۔ یہ 50 برسوں سے ویل چیئر پر پڑا ہے لیکن اس کے باوجود اس نے کائنات کی وسعت کا فلسفہ دیا اور پوری دنیا کو حیران کر دیا۔ یہ آئین سٹائن کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا دماغ کہلاتا ہے

مگر آپ سٹیفن ہاکنگ کو دیکھیں تو یہ آپ کو کسی بھی زاویے سے نارمل نہیں لگے گا اوریہ سلسلہ صرف یہاں تک نہیں رکتا‘ آپ ایبل کے چیف ایگزیکٹو آنجہانی سٹیوجابز کو دیکھ لیجئے اور مائیکرو سافٹ کے سابق چیئرمین بل گیٹس کو دیکھ لیجئے‘ یہ تمام لوگ بھی بچپن میں ابنارمل تھے‘ یہ زندگی کے کسی بھی حصے میں نارمل زندگی نہیں گزار سکے لیکن اس کے باوجود ان لوگوں نے انسانی عقل کو حیران کر دیا‘‘۔

ڈاکٹر صاحب میری بات اطمینان سے سنتے رہے‘ میں نے عرض کیا ’’یہ اس حقیقت سے واقف تھا چنانچہ یہ قہقہہ لگا کرآپ کے آفس سے چلا گیا‘ یہ جانتا ہے قسمت ایک ایسی کنجی ہے جو پرانے سے پرانے اور پیچیدہ سے پیچیدہ تالے کو یوں چٹکی بجاتے کھول دیتی ہے۔ دنیا کی سائنس جہاں پہنچ کر رک جاتی ہے اللہ تعالیٰ کا کرم‘ اللہ تعالیٰ کا فضل وہاں سے شروع ہوتا ہے‘

اس اللہ تعالیٰ کا فضل اور کرم جس نے دنیا کے سب سے بڑے پاگل کو آئین سٹائن بنا دیا تھا‘آپ دیکھ لیجئے گا یہ بچہ بھی اپنے والد سے آگے نکل جائے گا کیونکہ یہ قسمت لے کر پیدا ہوا ہے اور قسمت بڑے بڑے پاگلوں کو عروج پر پہنچا دیتی ہے۔

موضوعات:



کالم



گیم آف تھرونز


گیم آف تھرونز دنیا میں سب سے زیادہ دیکھی جانے…

فیک نیوز انڈسٹری

یہ جون 2023ء کی بات ہے‘ جنرل قمر جاوید باجوہ فرانس…

دس پندرہ منٹ چاہییں

سلطان زید بن النہیان یو اے ای کے حکمران تھے‘…

عقل کا پردہ

روئیداد خان پاکستان کے ٹاپ بیوروکریٹ تھے‘ مردان…

وہ دس دن

وہ ایک تبدیل شدہ انسان تھا‘ میں اس سے پندرہ سال…

ڈنگ ٹپائو

بارش ہوئی اور بارش کے تیسرے دن امیر تیمور کے ذاتی…

کوفتوں کی پلیٹ

اللہ تعالیٰ کا سسٹم مجھے آنٹی صغریٰ نے سمجھایا…

ہماری آنکھیں کب کھلیں گے

یہ دو مختلف واقعات ہیں لیکن یہ دونوں کہیں نہ کہیں…

ہرقیمت پر

اگرتلہ بھارت کی پہاڑی ریاست تری پورہ کا دارالحکومت…

خوشحالی کے چھ اصول

وارن بفٹ دنیا کے نامور سرمایہ کار ہیں‘ یہ امریکا…

واسے پور

آپ اگر دو فلمیں دیکھ لیں تو آپ کوپاکستان کے موجودہ…