جمعہ‬‮ ، 22 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

حسد کو اپنا دوست بنائیں

datetime 24  جون‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

خاتون کا تعلق میانوالی کے کسی چھوٹے سے گاﺅں سے تھا‘ وہ گرتے پڑتے تعلیم حاصل کرتی رہی تھی‘ اسے ایف ایس سی کے بعد لاہور کے ایک میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا‘ اس کی کلاس میں دو طالب علم تھے‘ یہ طالب علم بچپن سے ایک دوسرے کے دوست چلے آ رہے تھے‘ آپ ان میں سے ایک کا نام مظہر سمجھ لیں اور دوسرے کا نام امجد۔ یہ دونوں بہت ذہین اور محنتی تھے اور عموماً کلاس میں پہلی اور دوسری پوزیشن حاصل کرتے تھے ‘ یہ دونوں ذہانت اور محنت میںیکساں تھے لیکن شکل و صورت کے معاملے میں دونوں میں فرق تھا۔ مظہر خوبصورت اور وجیہہ نوجوان تھا جبکہ امجد عام نین نقش اورگندمی رنگت کامالک تھا۔ یہ دونوںجب میڈیکل کالج پہنچے اوروہاں انہیں خواتین کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا تو ان کے درمیان ایک خاموش کشمکش شروع ہو گئی‘ مظہر اپنی مردانہ وجاہت اور خوبصورتی کے باعث خواتین میں پاپولرہو گیا جبکہ امجد کو خواتین گھاس نہیں ڈالتی تھیںچنانچہ امجد کے دل میں مظہر کے خلاف حسد کا بیج پیدا ہو گیا‘ یہ بیج آہستہ آہستہ تناور درخت بنتا چلا گیا یہاں تک کہ وہ حسد کی آگ میں جلنے بجھنے لگا۔ مظہر امجد کی اس تبدیلی کو نہ بھانپ سکا‘ وہ اسے اسی طرح اپنا دوست سمجھتا رہا‘ مظہر کے دوسرے دوستوں نے اسے امجد میں آنے والی تبدیلیوں کے بارے میں مطلع کرنے کی کوشش کی مگر اس نے ان باتوں کو درخور اعتناءنہ سمجھا‘ وہ بدستور امجد کو اپنا ”بیسٹ فرینڈ“ سمجھتا رہا۔ یہاں میں اس داستان کو ایک لمحے کیلئے روکتا ہوں اورآپ کو حسد کے جذبے کی کیمسٹری سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔حسد انسانی ذات کا ایک ایسا جذبہ ہے جو سب سے پہلے محنت پر حملہ آور ہوتا ہے‘ آپ دنیا بھر کے حاسدین کو دیکھ لیجئے یہ لوگ آپ کو ہمیشہ نکمے دکھائی دیں گے‘یہ حقیقت ہے دنیا کا کوئی حاسد محنت نہیں کر سکتا کیوں؟کیونکہ محنت اور حسد دونوں کبھی ایک ذات میں اکٹھے نہیں ہوتے۔میں سٹوری کی طرف واپس آتا ہوں‘ امجد کے ساتھ بھی یہی ہوا‘ وہ حسد میں مبتلا ہوا تو اس نے محنت ترک کر دی‘ وہ سارا دن مظہرکو نقصان پہنچانے کے منصوبے بناتا رہتا‘ اس دوران امتحانات ہوئے ‘ امجد بری طرح فیل ہو گیا۔ مظہر کو اس کی ناکامی پر بہت افسوس ہوا لیکن امجد نے اس ناکامی کو بھی مظہر کے کھاتے میں ڈال دیا‘ وہ مظہر کی ہمدردی کومنافقت اور چالاکی گرداننے لگا‘ یہ سلسلہ مزید ایک سال چلا‘ اس دوران امجد دوسری مرتبہ فیل ہوگیا ‘وہ میڈیکل کالج سے فارغ کر دیاگیا‘ وہ بوریا بستر باندھ کر واپس گاﺅں چلا گیا جبکہ مظہر نے تیسری مرتبہ بھی ٹاپ کیا‘ وہ بڑی تیزی سے آگے بڑھتا چلا گیا‘ امجد کا حسد گاﺅں پہنچ کر انتقام کی شکل اختیار کرگیا‘وہ مظہر کو اپنا دشمن سمجھنے لگا جبکہ مظہراس کو بدستور اپنا دوست سمجھتاتھا اور پھر دونوں کی زندگی میں وہ رات آ گئی‘ مظہرلاہور سے واپس اپنے گاﺅں جا رہا تھا‘ اس کی واپسی کا صرف امجد کو علم تھا‘ مظہر کا گاﺅں بڑی سڑک سے ذرا ہٹ کر تھااور لوگ عموماً بڑی سڑک پر اترتے تھے اور وہاں سے پیدل چلتے ہوئے گاﺅں جاتے تھے‘ اس رات مظہر سڑک پر اترا‘ امجد اسے لینے کیلئے سڑک پر موجود تھا‘ وہ دونوں گاﺅں کی طرف چل پڑے‘ راستے میں ایک ویران جگہ آتی تھی اس جگہ پہنچ کر امجد نے پستول نکالا‘ مظہر کو للکارا اور چھ گولیاں اس کے سینے میں داغ دیں‘ یہ اس کے حسد کی تیسری سٹیج تھی‘ اس سٹیج پر پہنچ کر انسان انسان سے مجرم بن جاتا ہے‘ امجد بھی مجرم بن چکا تھا‘ اس واقعے کے آخر میں کیا ہوا‘ مظہراپنی جان سے گیا اور امجد آج کل کال کوٹھڑی میں پھانسی کاانتظار کر رہا ہے جبکہ گاﺅںدو باصلاحیت ڈاکٹروں سے محروم ہو گیا‘ مجھے یہ واقعہ میانوالی کی خاتون نے خط کے ذریعے بھجوایا اور آخر میں سوال کیا‘ ان دونوں باصلاحیت نوجوانوں کا قاتل کون تھا؟۔
میں تین دن سے نوجوان کا قاتل تلاش کر رہا ہوں‘ میں آخر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں ان دونوں کا قاتل حسد تھا!۔ محنت اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کیلئے سب سے بڑا تحفہ ہے‘ انسان اللہ تعالیٰ کی واحد مخلوق ہے جو کسی بھی حال میں محنت‘ کوشش اور جدوجہد ترک نہیں کرتی‘ آپ کبھی ”بم بلاسٹ“ یا حادثوں میں زخمی ہونے والے لوگوں کو دیکھئے‘ ان لوگوں کا سارا جسم زخموں سے چھلنی ہوجاتا ہے لیکن یہ لوگ اس کے باوجود محنت ترک نہیں کرتے‘ لوگوں کے ہاتھ کٹ جاتے ہیں تو یہ کہنیوں کو ہاتھ بنا لیتے ہیں اور اگر خدانخواستہ ان کے بازو کٹ جائیں تو یہ پاﺅں کی انگلیوں میںبرش پکڑکر خطاطی شروع کر دیتے ہیں‘ یہ کیا ہے ؟یہ انسان کا محنت کا جذبہ ہے‘ یہ جذبہ اسے کسی حال میں پسپا نہیں ہونے دیتا لیکن حسدوہ آگ ہے جو محنت کے جذبے کو بھی جلا کر بھسم کر دیتی ہے۔ آپ نے اکثر جانوروں کو دیکھا ہو گا‘ یہ جب کسی مادہ کا پیچھا کرتے ہیں اوراس دوران اگر مادہ اپنی مرضی سے کسی ایک نر کا انتخاب کرلے تو باقی نرپیچھے ہٹ جاتے ہیں لیکن انسان اس معاملے میں کبھی پسپائی اختیار نہیں کرتا‘یہ ہمیشہ انتقام پر اتر آتا ہے‘ یہ ناپسندیدگی اور ناکامی پر اکثر اوقات خواتین کے چہرے پرتیزاب پھینک دیتا ہے یا انہیں اور ان کے منگیتر وںکو گولی مار دیتا ہے‘ یہ سب حسد کے جذبے کی کارستانی ہے چنانچہ میں سمجھتاہوں حسد انسان کی زندگی کا انتہائی خوفناک جذبہ ہے‘ یہ وہ جذبہ ہے جو انسان کے ایمان تک کو کھا جاتا ہے‘ میں آپ کو یہاںایک اوردلچسپ بات بتاتا چلوں‘ انسان کی تاریخ میں آج تک جس شخص نے بھی ترقی کی اس نے اپنے حسد کے جذبے کو مسخر کیا‘ آپ ایڈیسن سے لے کر آئین سٹائن تک اور ابراہم لنکن سے لے کر مہاتما گاندھی تک اور بل گیٹس سے لے کر ڈاکٹر یونس تک دنیا کے تمام کامیاب لوگوں کی فہرست نکال کر دیکھ لیں۔ یقین کیجئے یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے اندر کے حسد کو سمجھا تھا اور نہ صرف اس پر قابو پایا بلکہ اپنے اس جذبے کو مثبت شکل بھی دی اوریہ وہ کامیابی تھی جو انہیں کہیں سے کہیں لے گئی‘قدر ت نے امجد کو بھی یہ موقع دیا تھا‘ قدرت نے اسے ذرا سا بدصورت بنایا تھا اور اس کے بعد اسے مظہر جیسے خوبصورت اور ذہین شخص کے ساتھ بٹھا دیاتھا تا کہ یہ حسد محسوس کرے اور یہ حسد اس کے اندر ایک ایسی طاقت پیدا کردے جو اسے ترقی یافتہ لوگوں کی فہرست میں شامل کر دے‘ امجد کے اندر یہ جذبہ پیدا ہوا لیکن یہ اسے مثبت انداز سے استعمال نہ کر سکا ‘یہ اپنی اس طاقت کو سمجھ نہ سکا چنانچہ یہ اس جذبے کی رو میں بہہ گیا اور اس نے مظہر کا بھی نقصان کر دیا اور خود بھی کال کوٹھڑی میں جاپہنچا‘ اگر امجد اس جذبے کو سمجھ جاتا‘یہ اس جذبے کو اپنی طاقت بنا لیتا تو یہ آج نہ صرف اس ملک کاکامیاب ڈاکٹر ہوتا بلکہ لوگ اس کی بدصورتی پر رشک بھی کرتے۔
میں اب آتا ہوں اس تکنیک کی طرف جس کی مدد سے ہم اپنے حسد کو مثبت شکل دے سکتے ہیں‘ یہ ایک بہت سادہ اور آسان طریقہ ہے ہمیں چاہئے ہم جب بھی کسی سے حسد میں مبتلا ہو ں تو ہم فوری طور پر اپنی محنت بڑھا دیں‘ اگر ہم حسد سے قبل آٹھ گھنٹے کام کرتے تھے تو ہمیں فوری طور پر12گھنٹے کام شروع کر دینا چاہئے‘اس طرح صرف ایک ماہ گزرے گا اور یہ حسد رشک میں بدل جائے گا اور اس کے بعد دنیا کی کوئی طاقت ہمیں کامیاب ہونے سے نہیں روک سکے گی‘ صرف محنت وہ جذبہ ہے جو ہمارے حسد کو رشک میں بدل سکتا ہے اور آپ انسان کی بدقسمتی ملاحظہ کیجئے یہ حسد میں گرفتار ہوتے ہی سب سے پہلے محنت ترک کرتا ہے اوریوں امجد جیسے انجام کا شکار ہو جاتا ہے‘ حسد انسانی زندگی کا سب سے بڑا تحفہ ثابت ہوسکتا ہے اگر آپ حسد کی قدروقیمت اور طاقت کو سمجھ جائےں اورآپ اس کا مثبت استعمال سیکھ جائےں‘ آپ یقین کیجئے حسدا نسان کا سب سے اچھا دوست ثابت ہو سکتا ہے ‘ آپ بس اس دوست سے فائدہ اٹھانے کا ہنر سیکھ لیں۔



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…