جمعہ‬‮ ، 22 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

خدا کےلئے

datetime 6  اپریل‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

آپ آج کل ملک کے تمام نیوز چینلز اور سوشل میڈیا پر وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز کا وہ کلپ دیکھ رہے ہوں گے جس میں یہ آف شور کمپنیوں اور لندن کے فلیٹس کا اعتراف کر رہے ہیں‘ یہ کلپ میرے پروگرام ”کل تک“ کا حصہ ہے‘ میں نے سات مارچ کو حسین نواز کا انٹرویو کیا تھا‘ میں شریف فیملی میں حسین نواز اور سلمان شہباز دونوں کا بہت احترام کرتا ہوں‘ اس احترام کی چند وجوہات ہیں مثلاً حسین نواز حافظ قرآن ہیں‘ یہ ہر وقت حالت وضو میں بھی رہتے ہیں‘ ان میں عاجزی بھی ہے اور آپ ان سے آسانی سے سچ بھی اگلوا سکتے ہیں‘ یہ اگر کسی بات کا جواب نہیں دینا چاہتے تو یہ معذرت کر لیتے ہیں‘خاموش رہتے ہیں یا پھر بات سنی ان سنی کر دیتے ہیں لیکن جب یہ جواب دیں گے تو وہ سیدھا اور سچا ہو گا‘ حسین نواز نے یہ عادت اپنے دادا میاں شریف سے سیکھی‘ بڑے میاں صاحب کی عادت تھی‘ وہ ناں نہیں کرتے تھے‘ وہ جو کام یا جو بات نہیں کرنا چاہتے تھے‘ وہ اس پر خاموش ہوجاتے تھے اور ان کی یہ خاموشی ان کی طرف سے ناں ہوتی تھی جبکہ سلمان شہباز ایک باصلاحیت بزنس مین ہیں‘ یہ فیملی کے تمام نوجوانوں سے زیادہ فوکس‘ زیادہ ذہین اور مضبوط قوت فیصلہ کے مالک ہیں‘ یہ شریف فیملی میں اپوزیشن بھی ہیں‘ یہ حکومتی غلطیوں کا کھل کر اعتراف بھی کرتے ہیں اور اپنے بزرگوں پر تنقید بھی چنانچہ میں دونوں کا احترام کرتا ہوں۔
میری حسین نواز سے چار جنوری کو سری لنکا کے سفر کے دوران ملاقات ہوئی‘ یہ وزیراعظم کے وفد میں شامل تھے‘ میں نے انہیں انٹرویو کےلئے تیار کرنا شروع کر دیا‘ یہ ٹیلی ویژن پر نہیں آنا چاہتے تھے لیکن میں انہیں ”سبز باغ“ دکھانے لگا‘ یہ نیم رضا مند ہو گئے‘ مارچ کے شروع میں یہ جدہ سے اسلام آباد آئے تو میں نے ان سے وقت لیا‘ ان سے ملاقات کی اور انہیں انٹرویو کےلئے تیار کر لیا‘ انٹرویو کےلئے ان کی ایک اور میری دو شرطیں تھیں‘ ان کا کہنا تھا‘ آپ چودھری نثار سے متعلق کوئی سوال نہیں پوچھیں گے‘ میں نے ایگری کر لیا‘ میری طرف سے پہلی شرط تھی‘ میں جو پوچھوں گا‘ آپ سیدھا جواب دیں گے‘ بات کو گھمائیں گے نہیں‘ انہوں نے کہا ”ڈن“۔ میری دوسری شرط تھی‘ آپ ریکارڈنگ کے بعد پروگرام کا کوئی حصہ ”ایڈٹ“ کرنے کا مطالبہ نہیں کریں گے‘ حسین نواز نے اس پر بھی ”ڈن“ کہہ دیا‘ اب سوال یہ ہے‘ میں نے اس انٹرویو کےلئے اتنا تردد کیوں کیا‘ اس کی بھی دو وجوہات تھیں‘ پہلی وجہ پانامہ لیکس تھی‘ یہ لیکس 2015ءسے زیر تحقیق تھیں‘ پاکستان میں تین صحافی ان سے واقف تھے‘ ان میں سے ایک نے نومبر میں سکینڈل کا ایک حصہ میرے ساتھ شیئر کیا‘ میں نے یہ حصہ دیکھتے ہی اس انٹرویو کا فیصلہ کر لیا‘ دوسری وجہ صحافت تھی‘ صحافت میرا پیشہ بھی ہے‘ جنون بھی اور عشق بھی چنانچہ میں نے صحافی بن کر سوچا‘ میں اگر حسین نواز سے آف شور کمپنیوں کا اعتراف کروا لیتا ہوں تو یہ ایک بہت بڑا بریک تھرو ہو گا‘ پانامہ کی لاءفرم ”موزیک فانسیکا اینڈ کو“ کے خفیہ ڈاکومنٹس کو ”لیک“ ہوئے سال گزر چکا ہے لیکن ابھی تک یہ سٹوری بریک نہیں ہوئی اور اگر میں دستاویزات میں موجود دو لاکھ 14 ہزار 4 سو 88 کمپنیوں اور 143 اہم شخصیات میں سے ایک اہم شخص سے آف شور کمپنیوں کا اعتراف کرا لیتا ہوں تو پھر بھوسے کے اس بورے کی گانٹھ کھلتے دیر نہیں لگے گی‘ یہ اس انٹرویو کی بیک گراﺅنڈ تھی۔
میں نے انٹرویو کے درمیان حسین نواز سے اچانک آف شور کمپنیوں کے بارے میں پوچھ لیا‘ یہ سوال غیر متوقع بھی تھا اور اچانک بھی۔ حسین نواز میں جھوٹ بولنے یا بات گول کرنے کی ”صلاحیت“ نہیں‘ یہ خاموش رہتے ہیں یا پھر سچ بولتے ہیں چنانچہ ان کے منہ سے جی ہاں نکل گیا اور اس کے بعد کی داستان آپ کے سامنے ہے‘ اس ایک منٹ اور 24 سیکنڈ کے اعتراف نے نہ صرف اسلام آباد سے پانامہ سٹی تک خوفناک اثرات چھوڑے بلکہ 2015ءمیں شروع ہونے والی سٹوری بھی 3 اپریل 2016ءکو بریک ہو گئی‘ ہم کیونکہ چھوٹے دل کے لوگ ہیں‘ ہم کسی کو کریڈٹ دینے کےلئے تیار نہیں ہوتے چنانچہ میری اس اچیومنٹ کو بھی پلانٹیڈ اور فکس قرار دے دیا گیا اور مجھے سوشل میڈیا پر ماں بہن کی گالیاں دینا شروع کر دی گئیں‘ میں اب جب بھی سوشل میڈیا پر ایماندار لوگوں کی گالیاں پڑھتا ہوں یا ٹیلی ویژن چینلز پر اپنے ساتھیوں کو دبے دبے لفظوں میں اس انٹرویو کو ”فکس“ قرار دیتے دیکھتا ہوں تو مسکرا اٹھتا ہوں‘ آپ کمال دیکھئے‘ ہمارے محبوب قائد انقلاب عمران خان نے بھی اس انٹرویو کو ”فکس“ قرار دے دیا‘ کیا یہ حد نہیں؟ کیا یہ کمال نہیں؟ میرا دعویٰ ہے‘ آپ جب بھی اس انٹرویو کو ذاتی پسند ناپسند سے بالاتر ہو کر صرف صحافتی بنیادوں پر دیکھیں گے تو آپ اس کے وجود اور اس وجود سے جڑے کریڈٹ کے اعتراف پر مجبور ہو جائیں گے‘ آپ اگر میری بات سے اتفاق نہیں کرتے تو آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے‘ کیا یہ سٹوری نہیں تھا‘ کیا یہ انکشاف ثابت نہیں ہوا‘ کیا اس نے پانامہ لیکس کی سٹوری میں آئس لینڈ کے مستعفی وزیراعظم جتنی اہمیت حاصل نہیں کی اور کیا یہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ دیکھے اور دکھائے جانے والے کلپس میں شامل نہیں ہوا؟ اگر اس کا جواب ہاں ہے تو کیا میں نے صحافی ہونے کا ثبوت نہیں دیا اور اگر ناں ہے تو پھر آپ مہربانی فرما کر صحافت کی کوئی نئی تعریف وضع کر دیں۔
میں اعتراف کرتا ہوں‘ میں گالیاں کھا کھا کر تھک گیا ہوں اور میں روز سوچتا ہوں‘ مجھے یہ پیشہ چھوڑ دینا چاہیے‘ پاکستان میں صحافت اب باعزت شعبہ نہیں رہا چنانچہ میں شاید اس شعبے کا پہلا کارکن ہوں گا جو باقاعدہ ریٹائرمنٹ لے کر باقی زندگی گم نامی میں گزاروں گا لیکن میں اس سلسلے میں پہلے آپ کی عدالت میں اپنا مقدمہ پیش کرنا چاہتا ہوں‘ آپ ملک میں صحافت کا کوئی کرائی ٹیریا طے کر لیں‘ آپ مجھے صحافت کے دائرے سے باہر نہیں رکھ سکیں گے مثلاً آپ ڈگری کو معیار بنا لیں‘ میں نے ایم اے ابلاغیات میں یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن اور گولڈ میڈل لیا تھا‘ آپ تجربے کو معیار بنا لیں‘ میں نے اخبار میں ٹرینی سب ایڈیٹر کی حیثیت سے کام شروع کیا‘ یہ چپڑاسی جیسی نوکری تھی‘ میں وہاں سے سٹارٹ لے کر نیوز ایڈیٹر بھی بنا‘ میگزین ایڈیٹر بھی اور رپورٹنگ ایڈیٹر بھی۔ میں نیوز ایجنسی کا ایڈیٹر بھی رہا اور میں نے میگزین بھی نکالے‘ میں 1996ءسے ہفتے میں چار کالم بھی لکھ رہا ہوں اور میں نے 26 سال کی عمر میں بیسٹ کالمسٹ اور 27 سال کی عمر میں ایکسلینس کا ایوارڈ بھی حاصل کیا‘ آپ کتابوں کو معیار بنا لیں‘ میری آٹھ کتابیں بازار میں ہیں اور یہ مسلسل بیسٹ سیلر ہیں‘ آپ الیکٹرانک میڈیا کو معیار بنا لیں‘ میں ماشاءاللہ مسلسل نو سال سے سیاسی ٹاک شو کر رہا ہوں‘ یہ ملک کے تین بڑے سٹیبل پروگراموں میں شمار ہوتا ہے‘ آپ سوشل میڈیا کو معیار بنا لیں‘ میری ویب سائیٹ پاکستان کی دوسری بڑی ویب سائیٹ ہے اور میرے فیس بک پیج پر پچیس لاکھ لوگ ہیں‘ پچھلے ہفتے گوگل نے میرے بیٹے کو سنگا پور بلا کر مبارک باد دی جبکہ فیس بک نے صرف دو پاکستانیوں کو امریکا آنے کی دعوت دی‘ ان میں سے ایک میرا بیٹا ہے اور دوسرا میرا بھائی اور یہ دونوں یہ سوشل میڈیا کمپنی چلا رہے ہیں‘ آپ ایکسپوژر کو میعار بنا لیں‘ میں دنیا کے 65 ملک پھر چکا ہوں اور انشاءاللہ مزید بھی پھروں گا‘ آپ کتابوں اور فلموں کو معیار بنا لیں‘ آپ مجھے اس میں بھی پیچھے نہیں پائیں گے‘ آپ دنیا بھر کی اہم شخصیات کو معیار بنا لیں‘ آپ مجھے بل گیٹس سے لے کر وارن بفٹ تک‘ لی آیا کوکا سے لے کر آرٹ بک والڈ تک اور مہاتیر محمد سے لے کر لی کوآن یو تک کے پاس پائیں گے‘ آپ ٹائم مینجمنٹ اور محنت کو معیار بنا لیجئے‘ میں پچھلے 22 برسوں سے روزانہ اٹھارہ گھنٹے کام کر رہا ہوں‘ میں کاروبار بھی کرتا ہوں اور آپ ٹیکس کو معیار بنا لیں‘ میں 1994ءسے ٹیکس دے رہا ہوں‘ میں میڈیا انڈسٹری میں سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے لوگوں میں شمار ہوتا ہوں‘ میں میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے مجموعی ٹیکس سے زیادہ ٹیکس دیتا ہوں‘ میں صبح جاگنے سے لے کر گہری نیند میں جانے تک اللہ تعالیٰ سے معافی بھی مانگتا رہتا ہوںاور اس کی نعمتوں کا شکر بھی ادا کرتا ہوں‘ میں روز اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں ”یا باری تعالیٰ !میں نے بچپن میں سیرت کی کتاب میں پڑھا تھا‘ نبی اکرم نے زندگی میں کوئی لمحہ ضائع نہیں کیا‘ آپ کے پاس کوئی کام نہیں ہوتا تھا تو آپ بان کی رسی بننے لگتے تھے یا پھر اپنا ٹوٹا ہوا جوتا گانٹھنے لگتے تھے‘ یا باری تعالیٰ! میں نے اس وقت فیصلہ کیا‘ میں آپ کے حبیب کی کم از کم یہ سنت ضرور پوری کروں گا اور وہ دن ہے اور آج کا دن ہے‘ میں نے آپ کے بخشے وقت کا کوئی لمحہ ضائع نہیں کیا‘ میں کار اور جہاز میں بھی کام کرتا ہوں‘ یا باری تعالیٰ! مجھے اس سنت کے صدقے ہی بخش دینا“ اور آپ ٹیچنگ کو معیار بنا لیں‘ میں نے ایک یونیورسٹی میں پریکٹیکل جرنلزم کا ڈیپارٹمنٹ بھی بنایا اور تین سال یہ شعبہ چلایا بھی۔ اب سوال یہ ہے‘ میں یہ کیوں کر رہا ہوں‘ میری اتنی محنت کا مقصد کیا ہے؟ میرے اس پاگل پن کا مقصد عزت‘ تسکین اور خوشحالی ہے‘ میں کسی انسان کے سامنے ہاتھ پھیلانے کو دنیا کی سب سے بڑی ذلت سمجھتا ہوں‘ میرا خیال ہے‘ انسان اس وقت سماجی اور نفسیاتی لحاظ سے مر جاتا ہے جس دن وہ چند ٹکڑوں کےلئے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے اور میں ان لوگوں میں شامل نہیں ہونا چاہتا‘ آپ اب بتائیے مزید صحافت کیا ہے اور کہاں ہے؟ میں وہ بھی کر لیتا ہوں اور مجھے خود کو ایماندار اور بے مول ثابت کرنے کےلئے مزید کیا کرنا چاہیے؟ میں وہ بھی کر گزرتا ہوں۔
میرے خیالات غلط ہو سکتے ہیں‘ یہ گھٹیا سے کالم اور کمتر پروگرام ہیں‘ یہ نعوذ باللہ آسمانی صحیفے نہیں ہیں‘ آپ ان پر سوال اٹھا سکتے ہیں لیکن میری ماں بہن کو گالی دینا کہاں کا انصاف ہے؟ ان بے چاریوں نے آپ کا کیا بگاڑا ہے؟ آپ مجھ سے اختلاف کریں لیکن مجھے بکاﺅ تو نہ کہیں‘ مجھے بے ایمان اور ان لوگوں کا غلام تو نہ کہیں جو اقتدار کے کیچڑ میں اپنا سب کچھ گنوا بیٹھے ہیں اور آپ کے دل میں اگر اس منت اور اس گریہ زاری کے بعد بھی میرے لئے رحم کی گنجائش پیدا نہیں ہوئی تو بھی خدا کےلئے‘ خدا کےلئے عشق رسول کا نعرہ لگا کر مجھے گالی نہ دیں‘ میرے پاس میرا رسول تو رہنے دیں‘ یہ تو مجھ سے نہ چھینیں‘ میرے اوپر اتنی تو مہربانی کریں۔
ہم اب آتے ہیں پانامہ لیکس کی طرف۔ (جاری ہے)



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…