منگل‬‮ ، 21 جنوری‬‮ 2025 

سانحہ چارسدہ‘حملہ آورخودکش جیکٹس کے بغیر تھے

datetime 22  جنوری‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

پشاور(نیوز ڈیسک)خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں نے خود کش جیکٹس نہیں پہن رکھی تھیں اور صوبے میں ہونے والے گذشتہ حملوں کے برعکس یہ واحد واقعہ معلوم ہوتا ہے، جب دہشت گرد خود کش جیکٹس کے بغیر تھے۔سیکیورٹی عہدیداران کا کہنا ہے کہ وہ اس حوالے سے جاننے میں تجسس رکھتے ہیں کہ دہشت گردوں نے یونیورسٹی پر حملے کے وقت خود کش جیکٹس کیوں نہیں پہنیں۔ایک سینیئر سیکیورٹی عہدیدار نے ڈان کو فون پر بتایا کہ کسی حملہ آور نے خودکش جیکٹ نہیں پہنی تھی اور نہ ہی ان کے پاس کھانے کا سامان اور پانی کی بوتلیں تھیں۔مذکورہ عہدیدار نے بتایا، ‘حملہ آوروں کے پاس ٹافیاں یا بسکٹس بھی نہیں تھے۔ان کا کہنا تھا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حملہ آوروں کا طلبہ اور اسٹاف کو یرغمال بنا کر دیر تک لڑنے کاارادہ نہیں تھا، جبکہ ماضی کے دہشت گردی کے حملوں کے برعکس حملہ آور بھاری ہتھیاروں سے بھی مسلح نہیں تھے۔ ا±ن کے پاس صرف اے کے 47 رائفلز اور صرف 8 دستی بم تھے۔عہدیدار کے مطابق چاروں حملہ آوروں کے پاس اضافی گولیوں کے صرف 2 میگزین تھے،جبکہ ہلکے ہتھاروں کا استعمال اس سے پہلے کسی دہشت گردی کے حملے کے دوران نہیں ہوا۔ایک اور سیکیورٹی عہدیدار کے مطابق خود کش جیکٹس اوربھاری ہتھیاروں کی غیر موجودگی سے اندازہ ہوتا ہے کہ دہشت گرد حملے کے بعد فرار ہونے کا پروگرام رکھتے تھے، لیکن یونیورسٹی کے محافظوں اور پلوسا گاو¿ں کے لوگوں کی مزاحمت کی وجہ سے حملہ آوروں کامنصوبہ ناکام ہوگیا۔انھوں نے بتایا کہ پلوسا گاو¿ں کے لوگوں کو جو کچھ بھی ملا وہ اسے اٹھا کر یونیورسٹی کے دفاع کے لیے آگئے، اس طرح کا ردعمل پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔مذکورہ عہدیدار کے مطابق گاو¿ں کے لوگوں کے بڑی تعداد میں یونیورسٹی کے باہر جمع ہونے سے دہشت گردوں کے فرار ہونے کا منصوبہ بھی ناکام ہوگیا۔ان کا کہنا تھا کہ گاو¿ں میں سب لوگ ایک دوسرے کو جانتے تھے اور حملے کے بعد گاو¿ں میں واپس جانا خود کو موت کے منہ میں ڈالنے کے مترادف ہوتا، یہی وجہ ہے کہ حملہ آوروں نے وہیں رہنے اور لڑائی میں مارے جانے کو ترجیح دی۔مذکورہ عہدیدار کے مطابق گاو¿ں کے لوگوں کا یونیورسٹی کے طلبہ کی مدد کو آنا ایک مثبت اشارہ ہے اور اگر یہی واقعہ کسی بڑے شہر میں ہوا ہوتا تو دہشت گرد فرار ہوسکتے تھے.سیکیورٹی عہدیدار کے مطابق حملہ آور مناسب تربیت یافتہ بھی نہیں تھے جو اپنے منصوبے پر مکمل عمل درآمد کرسکتے، یہی وجہ ہے کہ حملے میں جانی نقصان کم ہوا۔انھوں نے بتایا کہ حملہ آور صبح پونے 8 بجے کے قریب یونیورسٹی میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے اور آدھے گھنٹے کے اندر وہ یونیورسٹی کی حدود میں ایک بڑا نقصان کرسکتے تھے.مذکورہ عہدیدار کے مطابق حملہ آور کنفیوڑ اور مکمل طور پر تربیت یافتہ نہیں تھے اور نہ ہی انھوں نے اپنے ہدف کی احتیاط سے جاسوسی کی تھی.ان کا کہنا تھا کہ بظاہر لگتا ہے کہ حملہ آور صرف یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ وہ اب بھی اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کے قابل ہیں۔سیکیورٹی عہدیدار نے بتایا کہ حملہ آوروں کے پاس 2 موبائل فونز کے ساتھ ایک کاغذ کے ٹکڑے پر لکھے گئے 2 فون نمبرز بھی ملے، تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ نمبر مقامی تھے یا غیر ملکی۔



کالم



ریکوڈک میں ایک دن


بلوچی زبان میں ریک ریتلی مٹی کو کہتے ہیں اور ڈک…

خود کو کبھی سیلف میڈنہ کہیں

’’اس کی وجہ تکبر ہے‘ ہر کام یاب انسان اپنی کام…

20 جنوری کے بعد

کل صاحب کے ساتھ طویل عرصے بعد ملاقات ہوئی‘ صاحب…

افغانستان کے حالات

آپ اگر ہزار سال پیچھے چلے جائیں تو سنٹرل ایشیا…

پہلے درویش کا قصہ

پہلا درویش سیدھا ہوا اور بولا ’’میں دفتر میں…

آپ افغانوں کو خرید نہیں سکتے

پاکستان نے یوسف رضا گیلانی اور جنرل اشفاق پرویز…

صفحہ نمبر 328

باب وڈورڈ دنیا کا مشہور رپورٹر اور مصنف ہے‘ باب…

آہ غرناطہ

غرناطہ انتہائی مصروف سیاحتی شہر ہے‘صرف الحمراء…

غرناطہ میں کرسمس

ہماری 24دسمبر کی صبح سپین کے شہر مالگا کے لیے فلائیٹ…

پیرس کی کرسمس

دنیا کے 21 شہروں میں کرسمس کی تقریبات شان دار طریقے…

صدقہ

وہ 75 سال کے ’’ بابے ‘‘ تھے‘ ان کے 80 فیصد دانت…