پاکستان (نیوز ڈیسک)پاکستان میں آن لائن کاروبار کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی خریداروں میں خواتین شامل ہیں لیکن اب وہ بطور دکاندار بھی اس سائیبر ورلڈ میں قدم رکھ رہی ہیں۔ کاروبار میں توسیع اور ترقی کے لیے انہیں بین الاقوامی اور مقامی ادارے تربیت بھی فراہم کر رہے ہیں۔کراچی میں ساحل سمندر سے قریب، شہرکے ایک مشہور شاپنگ مال کے ایک کمرے میں ایسی ہی تربیتی نشست ہوئی جس میں دو درجن سے زیادہ خواتین ٹرینر کو بغور سننے میں مشغول نظر آئیں اور ساتھ ساتھ اپنی نوٹ ب±کس پر پوائنٹس بھی لکھتی رہیں۔ان خواتین میں آمنہ ضیا بھی شامل تھیں جو گذشتہ پندرہ سالوں سے اپنے والد کے کاروبار سے منسلک رہیں لیکن پچھلے برس ہی انہوں نے اپنے مکان سے کیک اور چاکلیٹ بنا کے آن لائن فروخت کرنا شروع کیے۔’کیک بنانے کے ساتھ میری بہت زیادہ دلچسپی چاکلیٹ بنانے میں تھی۔ آج کل’فِلڈ چاکلیٹ اور چاکلیٹ بارز‘ بنا کے آن لائن فروخت کرتی ہوں۔گھر سے ہی اس کام کی شروعات کی تو میرے بیٹے نے ویمن ایکس پروگرام کے بارے میں بتایا کہ وہ گھر سے چھوٹے پیمانے پرکام کرنے والی خواتین کوآرڈرز بڑھانے میں مدد کرتا ہے۔ اب میری خواہش ہے کہ میں کسی آن لائن سٹور پہ آجاو¿ں تاکہ میرے کیک اور چاکلیٹ زیادہ بِک سکیں۔‘میری خواہش ہے کہ میں کسی آن لائن سٹور پہ آجاو¿ں تاکہ میرے کیک اور چاکلیٹ زیادہ بِک سکیں۔شمائلہ ہادی، پانچ سالوں سے شادیوں اور دیگر تقاریب کے لیے کپڑے تیار کررہی ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے عبائے اور ب±رقع ڈیزائن کرنے شروع کیے ہیں اور انہیں مشرقِ وسطی کے ممالک میں فروخت کرنا چاہتی ہیں لیکن کشمکش میں ہیں۔’ میری پیدائش سعودی عرب میں ہوئی اور وہاں پلی بڑھی ہوں۔ تو مجھے معلوم ہے کہ وہاں عبایے کس طرح پہنے جاتے ہیں۔ میں ان کے عبایے پہ اپنے ملک کی روایتی کشیدہ کاری کرکے وہاں بیچنا چاہتی ہوں۔ یہ کام آن لائن کرناچاہتی ہوں لیکن کپڑا دبئی سے منگوانے کی وجہ سے ایک اچھے کام والا برقع بنانے پہ کافی لاگت آجاتی ہے لیکن وہ آن لائن صحیح داموں فروخت نہیں ہو پاتا۔اس لیے بڑے سٹور پہ جانا پڑتاہے۔‘اسی تربیت ورک شاپ میں شریک ریما نصیر کی’گفٹس ڈیل‘ کے نام سے اپنی کمپنی ہے اور وہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں تحفے تحائف بھیجنے کا کام کرتی ہیں۔ چار لوگوں کی ٹیم کے ساتھ 2014 سے یہ کام کر رہی ہیں۔ فی الوقت ماہانہ آمدنی ایک ڈیڑھ لاکھ روپے ہے لیکن اسے بڑھانے کے لیے مختلف ذرائع پر غور کررہی ہیں۔’ویمن ایکس میں آنے کے بعد ہمیں بہت سے ایسے پلیٹ فارمز کے بارے میں معلوم چلا جہاں ہم بغیر کسی اضافی لاگت کے اپنے کاروبار کو فروغ دے سکتے ہیں۔ میرے ا±ن نیٹ ورکس پہ روزانہ ہونے کی وجہ سے آرڈرز کی تعداد بڑھی ہے۔‘ویمن ایکس، عالمی بنک کے تعاون سے پاکستان میں چلنے والا ایک ادارہ ہے جو چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کرنے والی خواتین کو کاروبار سے متعلق آگاہی اور تعاون فراہم کرتا ہے۔ یہ ادارہ اس وقت پاکستان کے تین بڑے شہروں کراچی، لاہور اور پشاور میں کام کررہا ہے۔ حال ہی میں انہوں نے پاکستان میں آن لائن شاپنگ کی مشہور ویب سائٹ کیمو ڈاٹ پی کے، کے ساتھ مل کر ایسی ہی درجنوں خواتین کے لیے ایک تربیتی ورک شاپ منعقد کروائی۔ویمن ایکس میں آنے کے بعد ہمیں بہت سے ایسے پلیٹ فارمز کے بارے میں معلوم چلا جہاں ہم بغیر کسی اضافی لاگت کے اپنے کاروبار کو فروغ دے سکتے ہیں: ریما نصیر کیمو ایک آن لائن شاپنگ ویب سائٹ کراچی میں ان کی نمائندہ ماریہ دادانے بتایا کہ ’تین سالوں کے دوران کیمو کے ساتھ کوئی 15 ہزار لوگ جڑ چکے ہیں جواپنی اشیا فروخت کررہے ہیں۔ ان میں بیشتر تعداد خواتین کی ہے جوگھروں میں بیٹھ کر اپنے ہنر کے ذریعے کمانا چاہتی ہیں اور کیمو ایسی خواتین کے لیے ایک بہترین جگہ ہے۔‘اس تربیتی نشست میں ایسی ہی خواتین کو مصنوعات کی تیاری کے بعد ان کی ایک مخصوص قیمت کے تعین، اشیا کی آن لائن بہتر نمائش اور انہیں اچھے داموں فروخت کرنے کےگر سکھائے گئے۔واضح رہے کہ پاکستان میں غیر سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ایک کروڑ بیس لاکھ خواتین گھروں سے محنت مزدوری کرتی ہیں جس میں مڈل مین کے عمل دخل کی وجہ سے انہیں اپنی محنت کوڑیوں کے داموں فروخت کرنا پڑتی ہے۔ البتہ اگر یہی خواتین آن لائن اپنی اشیا فروخت کرنا سیکھ جائیں تو ان کی معاشی حالت کافی بہتر ہوسکتی ہے۔