اسلام آباد(نیوزڈیسک)ایک رپورٹ کے مطابق سائنس دان میرس وائرس سے بچاو¿ کی ویکسین کی تیاری کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ یہ رپورٹ جریدے ’سائنس‘ میں شائع ہوئی ہے۔یورپی سائنس دانوں نے اس مرض سے نمٹنے کے لیے چیچک کی ویکسین کی ایک قسم کو جینیاتی طور پر اس طرح تبدیل کیا ہے کہ وہ میرس وائرس (مڈل ایسٹرن ریسپائریٹری سنڈروم) پروٹین کو اوپری سطح پر لے آتی ہے۔’میرس وائرس اونٹ سے انسان میں منتقل ہوا‘سعودی عرب: میرس وائرس سے ہلاکتیں 282 ہوگئیںویکسین اونٹوں کو بچانے اور ان میں میرس وائرس کی علامات پیدا ہونے سے روکنے میں مددگار ثابت ہوئی ہے۔خیال رہے کہ میرس وائرس کا ماخذ اونٹ ہے۔میرس کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے قابل عمل ویکسین بنانے کی جانب یہ پہلا قدم ہے جس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں اونٹوں میں اس وائرس کے ذخیرہ ہونے اور انسانوں میں اس مرض کے پھیلنے کے امکانات بہت کم ہو جائیں گے۔امریکی ریاست میری لینڈ کی یونیورسٹی آف بالٹی مور کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر میتھیو فری مین ماہرین کو توقع ہے کہ ویکسین کی مدد سے اونٹوں میں اس وائرس کے پھیلاو¿ کو روکا جا سکے گا اور ممکنہ طور پر یہ انسانوں کو بھی اس کے انفیکشن سے محفوظ رکھے گی۔انسانوں میں میرس کورونا وائرس انفیکشن کے بارے میں سب سے پہلے سنہ 2012 میں سعودی عرب میں بتایا گیا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک اس مرض کے 1600 مریض سامنے آ چکے ہیں جن میں سے ایک تہائی افراد انفیکشن کے باعث ہلاک ہو چکے ہیں۔وائرس عمومی طور پر ان لوگوں میں پھیلتا ہے جن کا وائرس سے متاثرہ لوگوں سے قریبی رابطہ ہو، مثلاً گھر کے افراد یا صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنان۔دنیا بھر میں اب تک یہ مرض 26 ممالک میں پھیل چکا ہے جبکہ اس کا آغاز جزیرہ نما عرب سے ہوا تھا۔اس مرض کا تاحال کوئی علاج دریافت نہیں ہو سکا تاہم سائنس دانوں کی جانب سے اس کی ویکسین تیار کرنے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ہالینڈ میں ایرازمس میڈیکل سینٹر کے پروفیسر برٹ ہاگ مین کا شمار ان سائنس دانوں میں ہوتا ہے جو میرس وائرس کی ویکسین کی تیاری کے لیے کام کر رہے ہیں۔ وہ ویکسین کی تیاری میں مشغول ہیں اور اونٹوں پر اس کے تجربات کر رہے ہیں۔دنیا بھر میں اب تک یہ مرض 26 ممالک میں پھیل چکا ہے جبکہ اس کا آغاز جزیرہ نما عرب سے ہوا تھاممکنہ طور پر میرس وائرس سے متاثرہ اونٹ کے جسم سے خارج ہونے والے سیال یا مادہ کے ساتھ براہ راست رابطے کی صورت میں یہ انفیکشن انسانوں میں پھیلتا ہے۔کچھ ویکسینیں ایسی ہوتی ہیں جو جسم میں اینٹی بڑھاتی ہیں، چند ایسی ہوتی ہیں جو کِلر سیلز (وائرس سے متاثرہ خلیوں کو ختم کرنے والے خلیے) بناتی ہیں۔پروفیسر ہاگ مین کے نزدیک میرس وائرس سے نمٹنے کے لیےسب سے موثر ویکسین میں دونوں خصوصیات ہونی چاہییں۔مختلف یورپی ممالک کے سائنس دانوں پر مشتمل ایک ٹیم نے میرس وائرس کے تدارک کے لیے چیچک سے بچاو¿ کی ویکسین میں جینیاتی تبدیلیاں کی ہیں۔ اس ویکسین کو موڈیفائیڈ ویکسینیا انکرا (ایم وی اے) کا نام دیا ہے۔ٹیم کے اراکین نے جب ویکسینیٹڈ جانوروں میں میرس وائرس داخل کیا تو ان اونٹوں میں اس مرض کی بہت معمولی علامات پیدا ہوئیں اور ان کے جسم میں میرس وائرس بننے کی مقدار بھی خاصی کم رہی۔دوسری جانب وہ جانور جنھیں ویکسین نہیں دی گئی تھی ان میں وائرس کی علامات بھی پیدا ہوئیں اور ان کے جسم میں میرس وائرس کی مقدار بھی بہت زیادہ تھی۔ویکسین کے استعمال سے میرس وائرس کے انفیکشن کو مکمل طور پر تو نہیں روکا جا سکا تاہم اس کی مدد سے اونٹوں میں میرس وائرس کی بہت کم مقدار پیدا ہوئی۔امریکی ریاست میری لینڈ کی یونیورسٹی آف بالٹی مور کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر میتھیو فری مین نے اس تحقیق پر بی بی سی سے گفتگو کی ہے۔ان کا کہنا تھا ’میرس کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے قابل عمل ویکسین بنانے کی جانب یہ پہلا قدم ہے جس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں اونٹوں میں اس وائرس کے ذخیرہ ہونے اور انسانوں میں اس مرض کے پھیلنے کے امکانات بہت کم ہو جائیں گے۔‘