اسلام آباد(نیوز ڈیسک)کپاس کی فصل کا تخمینہ لگانے والے سرکاری ادارے کا کہنا ہے کہ رواں برس کے دوران کپاس کی ایک کروڑ 14 لاکھ گانٹھیں پیدا ہوں گی جواس سال کے لیے مقرر کردہ ہدف سے 40 لاکھ کم ہیں۔اس لحاظ سے یہ پچھلے کئی سالوں میں کپاس کی سب سے بڑی فصل ہے۔ اس سے پہلے پانچ سال پہلے کپاس کی فصل سیلاب کی وجہ سے تباہ ہو گئی تھی۔ملک کی 51 فیصد برآمدات کپاس کی مصنوعات پر مبنی ہے جس سے حکومت قریباً 12 ارب ڈالر زر مبادلہ کماتی ہے۔ملک کا 38 فیصد روزگار کپاس سے متعلق صنعت فراہم کرتی ہے۔پاکستان میں کپاس کی سالانہ کھپت ایک کروڑ 50 لاکھ گانٹھوں سے زیادہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ملک میں اس سال 40 سے 50 لاکھ گانٹھیں درآمد کرنا پڑیں گی جس کے لیے حکومت کو چار سے پانچ ارب ڈالر خرچ کرنا ہوں گے۔کپاس کے تخمینے کے لیے قائم کردہ کمیٹی کے تیسرے اجلاس میں پیش کردہ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ملک کو کپاس کے ایسے بحران کاسامنا ہے جس کی شدت کا درست اندازہ اب تک سرکاری اور آزاد ماہرین بھی نہیں لگا پائے۔کپاس کے تخمینے کے اس سرکاری ادارے نے ابتدائی ہدف پر چند ہفتے پہلے ہی نظر ثانی کر کے اسے ڈیڑھ کروڑ سے کم کر کے ایک کروڑ 30 لاکھ گانٹھیں کر دیا تھا۔ تاہم بدھ کی شام وزارت ٹیکسٹائل انڈسٹری میں ہونے والے اس اجلاس میں پیش کیے گئے اعدادوشمار کی روشنی میں اس ہدف پر ایک بار پھر نظر ثانی کر کے اسے ایک کروڑ 14 لاکھ کر دیا گیا ہے۔اجلاس میں شرکت کے بعد حکومت پاکستان کے کاٹن کمشنر ڈاکٹر خالد عبداللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس دوسری مرتبہ نظر ثانی کردہ ہدف میں اب مزید کمی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔’ہم کافی حد تک یقین سے کہ سکتے ہیں کہ کپاس کی فصل کا حجم اس سے مزید کم نہیں ہو گا اور ایک کروڑ 14 لاکھ کے قریب گانٹھیں روئی بنانے والی ملز میں پہنچ جائیں گی۔‘ملک میں 700 سے زائد بیج کمپنیاں کام کر رہی ہیں اس کے باوجود کسانوں کو بیج نہ ملنا بدقسمتی کی بات ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے حکومت نے بیج کی تیاری اور تقسیم کا نیا قانون حال ہی میں منظور کیا ہے جس کے بعد امید ہے کہ یہ مسئلہ دوبارہ پیدا نہیں ہوگا۔انھوں نے کہا کہ کپاس کی فصل کی اس بری کارکردگی کی دو بنیادی وجہ ہیں۔ ایک تو یہ کہ صوبہ پنجاب کے کپاس پیدا کرنے والے اضلاع میں ضرورت سے زیادہ بارش ہوئی اور دوسری اور زیادہ اہم وجہ کسانوں تک معیاری اور تصدیق شدہ بیج کا نہ پہنچ پانا ہے۔’کپاس کے لیے 40 ہزار من بیج کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس سال ہم اس کا صرف 22 فیصد ہی کسانوں تک پہنچا پائے۔ یہ مقدار پچھلے سالوں کی نسبت تو بہت زیادہ ہے لیکن کسان کی ضرورت سے پھر بھی بہت کم ہے۔‘ڈاکٹر خالد عبداللہ نے معیاری اور تصدیق شدہ بیج کی عدم فراہمی کی ذمہ داری بیج کی کمرشل پیدوار کی ذمہ دار نجی بیج کمپینوں پر عائد کی۔’ملک میں 700 سے زائد بیج کمپنیاں کام کر رہی ہیں اس کے باوجود کسانوں کو بیج نہ ملنا بدقسمتی کی بات ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے حکومت نے بیج کی تیاری اور تقسیم کا نیا قانون حال ہی میں منظور کیا ہے جس کے بعد امید ہے کہ یہ مسئلہ دوبارہ پیدا نہیں ہوگا۔‘کپاس کو پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ پاکستان کپاس پیدا کرنے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے۔ ملک کی 51 فیصد برآمدات کپاس کی مصنوعات پر مبنی ہے جس سے حکومت قریباً 12 ارب ڈالر زر مبادلہ کماتی ہے۔ اس کے علاوہ ملک کا 38 فیصد روزگار کپاس سے متعلق صنعت فراہم کرتی ہے