کراچی(نیوزڈیسک)بلدیاتی انتخابات،نوازشریف کوکیافائدے پہنچے ؟. پنجاب کے بلدیاتی انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کی شاندار کامیابی نے اس کی اصل حریف تحریک انصاف کو دنگ کردیا۔ جس کےلاہور آرگنائزر شفقت محمود نےپروقار اندازمیں شکست کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنے منصب سے استعفیٰ دے دیا۔ لیکن حکمراں حماعت ہونے کے فائدے کے علاوہ ن لیگ کی اس شاندار کامیابی کی وجہ کیا بنی؟ یہ تاریخ کا موضوع ہے کہ شریف برادران سیاست میں کس طرح آئے لیکن اس سے اجنبی لوگوں کیلئے یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے طرز سیاست کو تبدیل بھی کیا ہے۔ انہیں عمران خان کا شکر گزار ہونا چاہئے جنہوں نے 2013 کے عام انتخابات میں خواب غفلت سے جگایا ۔ انہوں نے شریف برادران کی مقبولیت کے گڈھ یعنی متوسط طبقے میں اپنے اثر و نفوذ سے دراڑیں ڈالیں، طاقت کے ایک اور مرکز نوجوانوں اور خواتین میں مقبولیت حاصل کی۔ لیکن گزشتہ چند برسوں سے شریف برادران نے بھی نچلے متوسط طبقے میں اپنے اثرات پیدا کئے۔ نواز و شہباز شریف کو موٹر وے اور میٹرو بس منصوبوں پر ہدف تنقید بنایا جاتا ہے اس سے قبل انہیں ’’یلو کیپ اسکیم‘‘ پر نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ لیکن ان منصوبوں نے آیا عوام کی سہولت بہم پہنچائی بھی ہے یا نہیں، یہ ابھی تحقیق طلب بات ہے۔ یلو کیب اسکیم کے غلط اسکیم ہونےپر دو رائے ہوسکتی ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس اسکیم نے بیروزگار نوجوانوں کو فائدہ پہنچایا۔ ایک نئے کلچر اور رجحان نے جنم لیا۔ جس میں تعلیم یافتہ افرادبا عزت روزگار کے طور پر اس پر فخر محسوس کرنے لگے۔تاہم پیپلز پارٹی کی بے نظیر انکم سپورٹ جیسی اسکیموں کو کرپشن نہیں بلکہ عوامی فلاح و بہبود کے لئے استعمال کیاجانا چاہئے۔ اب اگر ہزاروں افراد خصوصیاَ محنت کش اور ملازمت پیشہ حضرات ہر روز سفر میں سہولت محسوس کریں گے۔ کیا وہ ایسے پروجیکٹس کو اپنی تنقید کا نشانہ بنائیں گے یا اس کیلئے انکے دلوں میں نرم گوشہ پیدا ہوگا؟ اچھی ٹرانسپورٹ، سڑکوں کے بہتر نیٹ ورک ووٹر پر مثبت اثرات مرتب کریں گے۔ شریف برادران کی بڑی سیاسی غلطیاں بھی ہیں اور شاید انکا طرز حکومت بھی آمرانہ ہو، دیگر حکمرانوں کی طرح وہ ’’شریف دربار‘‘ میں اپنی مدح کو بھی پسند کرتے ہوں۔ جس کا مشاہدہ امریکا میں انکی پریس کانفرنس کو دیکھ کر ہوا،روزنامہ جنگ کے صحافی مظہرعباس کی رپورٹ کے مطابق لیکن گزشتہ تین دہائیوں میں پاکستان کے دیگر شہر بھی لاہور کی طرح ترقی کرسکتے تھے۔ بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کی وجہ مسلم لیگ(ن) کی نچلی سطح پر تنظیم اور کام کی مختلف سطح پر تقسیم بھی ہوسکتی ہے۔ بین الاقوامی صورتحال اورافراطِ زر اور مہنگائی پرقابو پانا بھی ان کےحق میں رہا۔ ایندھن کے نرخوں پر نظر رکھنے اور موسم سرما میں بلدیاتی انتخابات کراکر وہ لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے دبائو سے بچ گئے۔ جوڈیشیل کمیشن رپورٹ کے بعد سیاسی عوامل بھی ن لیگی حکومت کے حق میں رہے۔ اس بات پر اب عمومی اتفاق ہے کہا آئندہ انتخابات اپنے وقت پر2018 ہی میں ہوں گے۔ سیاسی و فوجی تعلقات میں بہتری ، امن و امان اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن نے عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں حکومت کی مددکی۔ اس طرح ’’دھرنا سیاست ‘‘ کے بعد عوام خود کو پرسکون محسوس کررہے ہیں۔ اس بات نے عمران خان کی طرزِ سیاست کو دھچکا لگا یاہے۔شریف برادران اور ان کی مسلم لیگ(ن) نے پنجاب میں تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کے حلقوں میں بھی اپنا اثر و نفوذ کیا ہے۔اس کی وجہ انکا اپنا کام اور دوسروں کی کمزوریاں رہیں۔ اب لوگ یہ بات پوچھ سکتے ہیں کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کیوں جیتی جبکہ اس کا طرز حکمرانی خراب تھا لیکن اس کے جواب میں پیپلز پارٹی کے مخالفین کا جائزہ لینا ہوگا۔ اندرون سندھ اپوزیشن نہ صرف منقسم ہے بلکہ ان پر اپنے دور حکومت میں کرپشن کے بھی سنگین الزامات رہے۔ اس طرح مضبوط اپوزیشن اور شفاف قیادت کی عدم موجودگی میں پیپلز پارٹی کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں بچا۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے سندھ میں اس کام کادس فیصد بھی نہیں کیا جو شریف برادران نے پنجاب میں کیا۔ ترقیاتی عمل اور مثبت اقتصادی اشاریئے ہی شریف برادران کی کامیابی کا جواز نہیں ہے۔ نواز شریف نے گزشتہ چند برسوں میں متانت اور سنجیدگی پر مبنی سیاست کے ذریعہ تبدیلی لائی ہے۔ وہ اپنی حریف بے نظیر کی حکومت ختم کرانے کیلئے ہر سازش کا ماضی میں حصہ بنے رہے لیکن2006 میں انہوں نے ان ہی بے نظیر بھٹو کے ساتھ میثاق جمہوریت طے کیا۔ انہوں نے اس وقت تک اس معاہدے کا احترام کیا جب تک کہ آصف علی زرداری اس سے پھر نہیں گئے۔شریف برادران نے سابق صدر پرویز مشرف سے سعودی عرب جانے کیلئے محفوظ راستہ طلب اور10 سال تک سیاست نہ کرنے کا وعدہ کرکے بڑی غلطی کی۔ لہذا ایک صنعتکار اور بزنس مین اور سندھ کے ایک وڈیرے اور جاگیردار کی پہنچ میں فرق محسوس کیا جاسکتا ہے لیکن بلدیاتی انتخابات میں کامیابی عام انتخابات میں جیت کی ضمانت نہیں ہے۔ جب تک کہ وہ بلدیاتی پلیٹ فارم کو بڑے پیمانے پر ترقیاتی کاموں کیلئے استعمال نہیں کرتے لوگوں کو روزگار فراہم اور تعلیمی میدان میں کام کرنا ہوگا۔ دوسرے اگر مسلم لیگ(ن) کی حکومت 2017 تک لوڈ شیڈنگ پر قابو پالیتی اور کوئی بڑی سیاسی غلطی نہیں کر بیٹھتی تو انہیں کسی بڑے چیلنج کا سامنا نہیں ہوگا ۔ یہ انتخابات دیگر سیاسی جماعتوں خصوصاً تحریک انصاف کیلئے خواب غفلت سے جاگنے کا اشارہ ہے۔ آئندہ دو سال میں عمران خان کو بڑے مربوط پروگرام کے ساتھ آنا ہوگا۔ اب تبدیلی کے دعوےیا دھاندلی کے الزامات کام نہیں کریں گے۔ کراچی کے سابق ناظمین نعمت اللہ خان اور مصطفیٰ کمال کی تعریف فلائی اوورز، انڈر پاسز اور پارکس بنانے کی وجہ سے کی جاتی ہے۔ یہ کوئی زیادہ بھاری پروجیکٹ نہیں لیکن عوام کو ریلیف دینے میں بڑے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے نعرے روٹی ، کپڑا اور مکان کی بدولت ہی عوامی مقبولیت حاصل نہیں کی بلکہ ملک کو پاکستان اسٹیل جیسے بھاری منصوبے دیئے۔ انہوں نے ذرائع روزگار پیدا کئے۔ پاسپورٹ فیس کم کردی جس نے متوسط طبقے کیلئے روزگار کے حصول میں بڑی مدد دی۔ یہ سچ ہے کہ برسر اقتدار حکومت کو فائدہ حاصل ہوتا ہے لیکن ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا۔ اگر حالیہ بلدیاتی انتخابات کا تجزیہ کیا تو آزاد امیدوار بڑی تعدادمیں کامیاب ہوئے ہیں۔ اگر اپوزیشن اور آزاد کو ملالیا جائے تو انکی تعداد حکمراں جماعت کے قریب پہنچ جاتی ہے۔1983,1979 اور 1987 میں اپوزیشن کو بالادستی رہی۔ پیپلز پارٹی کے عوام دوست امیدواروں نے کئی شہروں میں جیت کر اس وقت کی فوجی حکومت کو حیران کردیا۔ کراچی میں اس کا میئر منتخب ہوجاتا اگر اس کے دو کونسلرز کو اغواء نہیں کیا جاتا۔ پیپلز پارٹی کو ڈپٹی میئر پر اکتفا کرنا پڑا۔ آج وقت شریف برادران کے ساتھ ہے۔ اب یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ اپنی باقی ماندہ مدت کیسے مکمل کرتے ہیں اسی طرح تحریک انصاف فی الحال آزمائش میں ہے لیکن وہ سیاست سے باہر نہیں ہوئی ہے۔ وہ بلدیاتی انتخابات کے دھچکوں سے سنبھل کر اپنی نئی ابتداء کرسکتی ہے۔ ان بلدیاتی انتخابات نے پیپلز پارٹی کو موقع دیا ہے کہ وہ پنجاب میں اپنی جیتی ہوئی100 اور سندھ میں800 نشستوں کی بنیاد پر اپنی کارکردگی کو بہتر بنائے۔ جو ووٹ کی طاقت کو جانتے ہیں عام آدمی کی زندگی کو تبدیل کرنے کا کوئی متبادل نہیں ہے۔