دبئی (نیوزڈیسک) حال ہی میں اپنے نتائج کو پہنچنے والے بلدیاتی انتخابات سے ایک گہری حقیقت عیاں ہو گئی کہ اسٹیٹس کو برقرار رہے گا جس میں تمام سیاسی جماعتیں صوبوں میں اپنا کنٹرول برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اگرچہ جیتنے اور ہارنے والے چاہے جس طرح چاہیں نتائج کی تشریح کریں، لیکن اس بات کی بھی تصدیق ہوتی ہے کہ سیاسی، عسکری اور سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ اس اسٹیٹس کو کو تبدیل کرنے کی خواہاں نہیں ہے کم از کم یہ خواہش اِس وقت محسوس نہیں کی جا رہی جب مختلف سطحوں پر متعدد سرد جنگوں کی علامات بھی نظر آ رہی ہیں۔ لہٰذا، مسلم لیگ (ن)، جس کا پنجاب کے اقتدار میں ایک بڑا حصہ ہے، نے اپنا حصہ برقرار رکھا۔ پٹ چکی اور رسوائی کا شکار پیپلز پارٹی نے بھی اندرون سندھ اپنا کنٹرول برقرار رکھا۔ خیبرپختونخوا کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف نے بھی اکثریت حاصل کر لی۔ بلوچستان میں سیاسی سیٹ اپ مشکوک انداز سے منتشر ہے اور بلدیاتی انتخابات میں اس کی یہی شبیہہ برقرار رہی۔ روزنامہ جنگ کے صحافی شاہین صہبائی کے تجزیہ کے مطابق اگر سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ نے کراچی میں ایم کیو ایم کے حوالے سے معاف کرو اور بھول جائو کی پالیسی اختیار نہ کی تو یہاں معاملات تبدیل ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا اگر ایم کیو ایم نے کراچی، حیدرآباد اور شہری علاقوں میں کچھ نہ کیا تو وہ اپنی قوت دکھا سکتی ہے، اور ایک مرتبہ پھر اس کا انحصار ان قوتوں کے ساتھ تعلقات پر ہے جو ایم کیو ایم سے نمٹ رہی ہیں۔ یقینی طور پر یہ قوتیں وفاقی یا سندھ کی صوبائی حکومت نہیں ہیں۔ اگر سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج اسی طرز کے رہے تو مسلم لیگ (ن) کو زیادہ خوش نہیں ہونا چاہئے۔ کیوں؟ کیونکہ 31 اکتوبر کے انتخابات میں پارٹی کے مقابلے میں آزاد امیدواروں نے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ اگرچہ ان آزاد امیدواروں کی اکثریت بالآخر حکمران جماعت میں شامل ہوجائے گی لیکن ان امیداروں نے پارٹی کی درجہ بندی کو چیلنج کیا ہے۔ یہ بات یقینی نہیں ہے کہ یہ نتائج بڑی سیاسی جماعتوں کے اقتدار کے ڈھانچے میں کوئی دراڑ ڈال سکیں گے یا نہیں۔ ناظمین اور ضلعی اور یونین کونسلوں کے اختیارات کم کر کے انہیں صوبائی حکومتوں کے ماتحت کر دیا گیا ہے۔ جس کے نتیجے میں یہ امکان بہت ہی کم رہ جاتا ہے کہ نئی اور زیادہ متحرک قیادت ابھر کر سامنے آئے گی، جس طرح ضیا الحق کے دور میں اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں سامنے آئی تھی۔ لیکن جو بات طے ہے وہ یہ ہے کہ اعلیٰ سطح پر موجود یہ ڈھانچے ایک زبردست تبدیلی کے عمل سے گزریں گے، باغیوں اور اس طرح کے رجحانات رکھنے والے مردوں اور خواتین کو نکال باہر کریں گے، خاندان کے لوگوں اور ساتھیوں کو اپنے ساتھ شامل کر لیں گے اور نہ صرف پارٹی کے عہدوں پر اپنی گرفت برقرار رکھیں گے بلکہ حکومت کی ہر سطح پر کنٹرول حاصل کر لیں گے۔ جس بات کا خدشہ ہے وہ یہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے ان نتائج سے ان بڑی پارٹیوں کو یہ بے محل، اور انتہائی نقصان دہ، اعتماد حاصل ہوجائے گا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے سست رفتار قبضے کو چیلنج کرنے کیلئے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں، جن میں کرپشن کے متعدد کیسز شامل ہیں، کے باوجود ابھر کر سامنے آ سکتے ہیں۔ یہ صورتحال نقصان دہ ہے کیونکہ سرد جنگوں اور اقتدار کے حصول کی جدوجہد نے اسلئے سر نہیں اٹھایا کہ خاکی لوگوں کے حلقوں کے مقاصد ایسے ہیں بلکہ اس وجہ سے سیاست دانوں نے اپنی انتہائی خراب اور بدچلن طرز حکمرانی کے ذریعے وہ خلاء چھوڑا ہے جسے دوسری جانب بیٹھے لوگوں نے از خود پر کر دیا۔ تقریباً غیر آئینی سمجھی جانے والی اپیکس کمیٹیوں کی تشکیل حکومت کے نئے انتظام کی واضح مثال ہے۔ لہٰذا اگر سیاست دان سمجھتے ہیں کہ وہ نئے ملنے والے اعتماد کے ذریعے ، کارکردگی کو بہتر بنائے، کرپشن کے خاتمے، شفافیت، چوروں کو پکڑے اور اپنی ساکھ بہتر بنائے بغیر اپنی طاقت دکھا سکتے ہیں تو ایسا سوچنا خودکشی کے مترادف ہے۔ جو بات طے ہے وہ یہ ہے کہ مرکز اور صو بو ں میں بیٹھی سیاسی حکومتیں دوبارہ اہم ترین معاملات، جیسا کہ قومی سلامتی، خارجہ امور، علاقائی سلامتی اور انسداد دہشت گردی کی پالیسی، کا کنٹرول دوبارہ نہیں سنبھال سکیں گی، تاوقتیکہ ترکی کی طرز پر حکمرانی اور اقتصادیات کے شعبے میں پائیدار اور واضح بہتری لا کر اسے برسوں برقرار رکھا جائے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ عوام کو سہولتوں کی فراہمی اور کارکردگی کی وجہ سے ہی ترک سیاست دانوں کو جرنیلوں سے نمٹنے کی طاقت ملی تھی۔