اسلام آباد (این این آئی)اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس محمد آصف کے کم عمر بیٹے کو تیز رفتار گاڑی کی ٹکر سے دو نوجوان لڑکیوں کے جاں بحق ہونے کے مقدمے میں جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دے دیا گیا۔عدالتی مجسٹریٹ شائستہ خان کندی نے پولیس کی درخواست پر جسمانی ریمانڈ کا حکم جاری کیا۔سیکرٹریٹ پولیس اسٹیشن میں درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر )کے مطابق یہ حادثہ پیر کی رات دیر گئے اسلام آباد میں پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس (پی این سی اے )کے قریب پیش آیا، جہاں مبینہ طور پر ایک تیز رفتار سیاہ رنگ کی گاڑی نے پی این سی اے میں کام کرنے والی دو لڑکیوں کو ٹکر مار دی جسے جج کا کم عمر بیٹا چلا رہا تھا۔جاں بحق ہونے والی لڑکیاں اسکوٹر پر سوار تھیں جب انہیں گاڑی نے ٹکر ماری، اور وہ مبینہ طور پر موقع پر ہی دم توڑ گئیں۔ پولیس کے مطابق ٹکر کے بعد گاڑی فورا موقع سے فرار ہو گئی۔
سب انسپکٹر محمد اصغر کی مدعیت میں درج کی گئی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ پولیس نے رجسٹریشن نمبر کی مدد سے گاڑی کا سراغ لگایا اور بعد ازاں ایک نجی ہسپتال پہنچے جہاں ملزم کو طبی امداد کے لیے لایا گیا تھا۔بعد ازاں اسے حراست میں لے لیا گیا، اس کے طبی اور فرانزک نمونے لیے گئے اور گاڑی کو جانچ کے لیے تحویل میں لے لیا گیا۔کیس میں تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 279 (تیز اور لاپرواہ ڈرائیونگ)، 322 (غیر ارادی قتل)اور 427 (نقصان پہنچانے کی نیت سے شرارت)شامل کی گئی ہیں۔تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ تفتیش مکمل کرنے کے لیے مزید جسمانی ریمانڈ درکار ہے، جس میں ملزم کی میڈیکل رپورٹ کی تصدیق، گاڑی کا معائنہ اور عینی شاہدین کے بیانات شامل ہیں۔ریکارڈ اور پولیس کی درخواست کا جائزہ لینے کے بعد عدالت نے مزید تفتیش کے لیے ملزم کا جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا۔ جاں بحق ہونے والی لڑکیوں کی لاشیں پوسٹ مارٹم کے لیے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز منتقل کر دی گئیں۔
پولیس کے مطابق سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کرنے اور یہ جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ آیا گاڑی تیز رفتاری سے چلائی جا رہی تھی یا غفلت برتی گئی، جبکہ حکام نے متاثرہ خاندانوں کو یقین دہانی کرائی ہے کہ کیس کی تحقیقات میرٹ پر کی جائیں گی۔2022 میں اسلام آباد میں ایک گاڑی، جو مبینہ طور پر لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج کی بیٹی چلا رہی تھی، نے ایکسپریس وے پر سہان پل کے قریب دو افراد کو کچل دیا تھا، اور اس کیس کی تحقیقات تعطل کا شکار رہیں۔عدالتی ریکارڈ میں موجود تفصیلات کے مطابق، 8 جون کو شکیل تنولی اور ان کے ساتھی حسنین علی آدھی رات کو گھر جا رہے تھے جب ایک گاڑی نے انہیں ٹکر مار دی، جو مبینہ طور پر ایک خاتون چلا رہی تھیں۔جولائی 2024 میں انسپکٹر جنرل اسلام آباد پولیس علی ناصر رضوی نے اسلام آباد ہائیکورٹ کو بتایا کہ ہٹ اینڈ رن کیس میں شامل گاڑی ایک خاتون چلا رہی تھی اور وہ سپریم کورٹ کے جج ملک شہزاد احمد کے زیر استعمال تھی۔اسی سال فروری میں، اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت نے سپریم کورٹ کے جج کی بیٹی شانزے ملک کو بری کر دیا تھا۔ یہ فیصلہ جوڈیشل مجسٹریٹ عدنان یوسف نے سنایا تھا، جنہوں نے ملزمہ کے وکلا کی جانب سے دائر بریت کی درخواست منظور کر لی تھی۔















































