اسلام آباد – پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی تعلقات میں عارضی بندش پاکستان کے لیے فائدہ مند ثابت ہو رہی ہے، جبکہ افغانستان کو اس کے نتیجے میں شدید معاشی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ پاکستان نے ایسے تمام راستے بند کر دیے ہیں جو سمگلنگ، منشیات، غیر قانونی اسلحہ اور دہشت گردی کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ تجارتی بندش کا یہ اقدام قومی سلامتی، اقتصادی استحکام اور ریاستی کنٹرول کے لیے انتہائی اہم اور دیرپا ثابت ہوگا۔
ذرائع کے مطابق افغانستان کی تجارت کا تقریباً 70 سے 80 فیصد انحصار پاکستان کی سڑکوں اور بندرگاہوں پر ہے۔ کراچی کے راستے سامان افغانستان پہنچنے میں 3 سے 4 دن لگتے ہیں، جبکہ ایران کے راستے یہ عمل 6 سے 8 دن اور وسطی ایشیائی ممالک کے ذریعے 30 دن یا اس سے زیادہ وقت لے سکتا ہے۔
افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت پاکستان میں بڑی مقدار میں سمگلنگ ہوتی رہی، جس سے ملک کو سالانہ تقریباً 3.4 کھرب روپے کا نقصان ہوتا تھا۔ افغانستان کی جانب سے واپس آنے والا سامان بھی تقریباً 1 کھرب روپے کے برابر تھا، جو مزید نقصان کا سبب بنتا۔ صرف طورخم کی بندش سے ایک ماہ میں افغانستان کو 45 ملین ڈالر کا نقصان ہوا اور چند ہفتوں میں مجموعی نقصان 200 ملین ڈالر سے تجاوز کر گیا۔
بارڈر پر 5 ہزار سے زائد ٹرک پھنسنے کی وجہ سے افغان فصلیں اور پھل، جو پاکستان کی منڈی میں فروخت کے لیے روانہ کیے گئے تھے، ضائع ہو گئے۔ ایران کے راستے تجارت کی لاگت 50 سے 60 فیصد بڑھ گئی اور ہر کنٹینر پر اضافی 2,500 ڈالر کرایہ لگ گیا۔ افغانستان میں ادویات کی ترسیل بھی متاثر ہوئی کیونکہ زیادہ تر ادویات پاکستان کے راستے ہی پہنچتی تھیں۔ متبادل راستے سست، مہنگے اور غیر محفوظ ہیں، اور افغانستان کی کمزور معیشت اس اضافی بوجھ کو برداشت نہیں کر سکتی۔
سمگلنگ کے رکنے کے بعد افغانستان میں تقریباً 200,000 خاندان بے روزگار ہو گئے جو اس کاروبار سے وابستہ تھے۔ تاہم، عام پاکستانی شہری کی زندگی پر اس تجارتی بندش کا اثر نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ افغانستان سے آنے والا سامان بنیادی ضروریات کی بجائے لگژری اشیاء پر مشتمل تھا، اور پاکستان کے پاس CPEC اور چین کے ساتھ براہِ راست زمینی راستے بھی موجود ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ تجارتی بندش سے سمگلنگ نیٹ ورک ٹوٹیں گے اور اسلحہ و منشیات کی ترسیل رک جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی مشرقی صوبوں میں محدود تجارت دیگر صوبوں اور متبادل راستوں، جیسے ایران اور وسطی ایشیائی ممالک کی طرف منتقل ہوگی، جس سے افغانستان میں اقتصادی تنوع اور شمولیت میں اضافہ ہوگا۔ طویل مدتی یعنی 5 سے 10 سال میں پاکستان بھی اس کے مثبت اثرات محسوس کرے گا۔
اب افغان طالبان کے لیے فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ دہشت گردوں کو تحفظ دیں گے یا پاکستان کے ساتھ مل کر ترقی اور خوشحالی کے سفر میں شامل ہوں گے۔















































