اسلام آباد (نیوز ڈیسک)برطانوی جریدے دی اکانومسٹ کی تازہ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے گھر آنے کے بعد ان کی رہائش گاہ میں غیر معمولی اور عجیب رسوم رائج ہو گئیں۔ رپورٹ کے مطابق عمران خان کے سابق گھریلو ملازمین اور ڈرائیور نے بتایا کہ بعض مواقع پر عمران خان کے سر کے گرد کچے گوشت کے ٹکڑے گھمائے جاتے، سیاہ بکرے یا مرغیوں کے سروں کو قبرستان میں پھینکوانے جیسی سرگرمیاں دیکھنے میں آئیں، جبکہ کبھی کبھی زندہ سیاہ بکرے بھی منگوائے جاتے تھے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی سیاست میں بشریٰ بی بی کا کردار اگرچہ سامنے کم آیا، لیکن ان کا پسِ پردہ اثر و رسوخ اکثر موضوعِ بحث رہا۔
جریدے نے لکھا کہ عمران خان کی تیسری شادی نے نہ صرف ان کی ذاتی زندگی بلکہ حکومتی معاملات میں بھی کئی سوالات کھڑے کیے۔دی اکانومسٹ کے مطابق 2018 میں عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد ان کی اہلیہ کا کردار تیزی سے سیاسی گفتگو کا حصہ بنتا چلا گیا۔ مخالفین کا مؤقف رہا کہ وہ حکومتی فیصلوں میں حد سے زیادہ دخل دیتی تھیں۔ ایک سابق کابینہ رکن نے دعویٰ کیا کہ وزیراعظم ہاؤس میں ان کا اثر بہت بڑھ چکا تھا۔ رپورٹ میں یہ بھی تحریر ہے کہ عمران خان اپنے متعدد سرکاری فیصلوں سے پہلے بشریٰ بی بی سے مشورہ کیا کرتے تھے، جس سے روحانیت اور سیاست کے امتزاج پر اعتراضات سامنے آئے۔تحقیقی رپورٹ میں کچھ ملازمین کے حوالے سے یہ دعوے بھی شامل ہیں کہ گھر میں لال مرچیں جلانے، قبروں پر جانوروں کے سروں کے پھینکوائے جانے اور دیگر رسومات کے واقعات معمول بنتے گئے تھے۔ علاقے کے ایک قصائی نے بھی ایسے غیر معمولی آرڈرز کی تصدیق کی۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا کے ایک قریبی رشتے دار نے بھی مبینہ طور پر جہانگیر ترین کو ان کے متعلق خدشات سے آگاہ کیا تھا۔ تاہم پی ٹی آئی نے ان تمام باتوں کو گھریلو ملازمین کے جھوٹے بیانات قرار دیا۔جریدے نے ایک اہم واقعہ بھی بیان کیا جس کے مطابق ایک دعوت میں بشریٰ بی بی نے جہانگیر ترین سے مزاحاً کہا کہ انہوں نے سفید لباس اس لیے پہنا ہے تاکہ وہ انہیں ’کالے جادو‘ والی خاتون نہ سمجھیں۔ رپورٹ کے مطابق اسی ملاقات کے بعد جہانگیر ترین نے پارٹی چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی سامنے آیا ہے کہ عمران خان کی اہلیہ پر تنقید کرنے والوں کو پارٹی کے اندر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ عون چوہدری کے حوالے سے بتایا گیا کہ انہیں عمران خان نے حلف برداری سے قبل ہی اس وجہ سے الگ کر دیا کہ بشریٰ بی بی نے ایک خواب کی بنیاد پر تقریب میں ان کی موجودگی سے اختلاف ظاہر کیا تھا۔دی اکانومسٹ نے یہ انکشاف بھی کیا کہ حساس اداروں کی دلچسپی بشریٰ بی بی میں اس وقت سے شروع ہوئی جب عمران خان سے ان کی خفیہ شادی ہوئی۔ رپورٹ کے مطابق ادارے کے کچھ افراد اہم معلومات بشریٰ بی بی تک پہنچاتے جو بعد میں اسے ’روحانی بصیرت‘ بتاتے ہوئے عمران خان کو بتاتیں، جس سے عمران خان کا ان پر اعتماد مزید بڑھتا چلا گیا۔رپورٹ کے مطابق عمران خان اور فوجی قیادت کے تعلقات میں تناؤ کی ایک وجہ بھی یہی تھی کہ اعلیٰ افسران کو شکایت رہتی کہ عمران خان بعض حساس معاملات میں اپنی اہلیہ کی رائے کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ 2019 میں آئی ایس آئی کے اُس وقت کے سربراہ جنرل عاصم منیر کی تبدیلی کو بھی اس پس منظر سے جوڑا جاتا ہے۔اقتدار سے ہٹنے کے بعد دونوں کے خلاف متعدد مقدمات قائم ہوئے اور آج وہ جیل میں ہیں۔ پارٹی کے چند رہنماؤں کا خیال ہے کہ اگر حکومت اور فوج میں صلح ہو سکتی ہے تو اس میں اہم کردار بشریٰ بی بی ادا کر سکتی ہیں، مگر عمران خان کے قریبی حلقے اور خاندان کے کچھ افراد اس مفاہمت کے سخت خلاف ہیں۔















































