اسلام آباد(نیوزڈیسک) الیکشن کمیشن آف پاکستان نے قرار دیا ہے کہ اس کی حیثیت محض سامان محفوظ رکھنے والے لاکر کی نہیں بلکہ اسے سیاسی جماعتوں کی جانب سے جمع کرائے گئے گوشواروں اور دستاویزات کی جانچ پڑتال کا لامحدود اختیار حاصل ہے جسے وہ کسی بھی مرحلہ اور کسی کی درخواست پر استعمال کرسکتا ہے۔ کمیشن نے اس امر کا اظہار بدھ کو اپنے تحریری فیصلہ میں کیا جس میں تحریک انصاف کی جانب سے کمیشن کے اختیار کو چیلنج کرنے کے موقف کو مسترد کرنے کی وجوہات بیان کی گئی ہیں۔ کمیشن نے اس ضمن میں 8 اکتوبر کو زبانی حکم جاری کیاتھا۔ تحریک انصاف کے بانی رہنما اور سابق مرکزی سیکریٹری اطلاعات اکبر شیر بابر نے پی ٹی آئی فنڈز میں خوردبرد اور غیرقانونی غیرملکی فنڈنگ کے خلاف نومبر 2014 ء میں الیکشن کمیشن میں پٹیشن دائر کی تھی ۔ چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار رضا خان کے تحریرکردہ فیصلہ پر کمیشن کے دیگر ارکان جسٹس (ر) محمد روشن عیسانی، جسٹس (ر) ریاض کیانی، جسٹس (ر) شاہد اکبر خان اور جسٹس (ر) فضل الرحمن نے دستخط کئے ہیں۔ روزنامہ جنگ کے صحافی طاہرخلیل کی رپورٹ کے مطابق اکبر شیر بابر نے سیاسی جماعتوں کے حکم 2002ء کی شق چھ اور سیاسی جماعتوں کے قواعد2002 کے قاعدہ چھ کے علاوہ آئین اور قانون کی دیگر متعلقہ شقوں کے تحت پٹیشن دائر کی تھی جس میں ان کی وکالت سید احمد حسن شاہ نے کی جبکہ تحریک انصاف کی جانب سے شعیب شاہین ایڈووکیٹ پیش ہوئے لیکن بعدازاں پی ٹی آئی نے انہیں تبدیل کرکے سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان کواپنا وکیل مقررکیا۔ کمیشن نے تحریری فیصلہ میں کہاکہ ابھی ہم تحریک انصاف کی جانب سے پیش کردہ کھاتوں کی تفصیل کا جائزہ ہی لینے والے تھے کہ پارٹی نے اپنا وکیل تبدیل کرکے انور منصور خان کو مقرر کیا جنہوں نے ابتدمیں ہی یہ اعتراض کردیا کہ کمیشن کو سماعت کا اختیار نہیں اور اس نکتہ کو پہلے طے ہونا چاہیے۔ انور منصور نے سپریم کورٹ کے پی ایل ڈی 2009 ایس سی (879-1041) کے دلچسپ فیصلہ کا حوالہ پیش کیا جس کی سماعت کرنے والے بینچ کا میں بھی اتفاق سے رکن تھا۔ انور منصور کی دلیل مسترد کرتے ہوئے جسٹس سردار رضا خان نے تحریر کیا کہ یہ امر ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ اکلوتی متعلقہ اتھارٹی الیکشن کمیشن جب اپنے دائرہ اختیار کو استعمال میں لاتا ہے تو اس کے اختیار کو کیونکر ملک میں ہنگامی صورتحال یا مارشل لاء نافذ کرنے والی اتھارٹی کے مساوی کہاجاسکتا ہے۔ فیصلہ میں واضح کیاگیا کہ ’’موجودہ معاملہ میں کمیشن نے نہ صرف اپنے اختیار کو استعمال کیا بلکہ درحقیقت کسی اور کو نہیں محض کمیشن کو ہی اس ضمن میں مکمل اختیار حاصل ہے‘‘۔ تحریری فیصلہ کے مطابق ’’سیاسی جماعتوں کے حکمنامہ 2002ء کو سیاسی جماعتوں کے قواعد2002ء سے ملا کر پڑھیں تو واضح اور غیرمبہم طور پر قاعدہ چار کے تحت تمام سیاسی جماعتوں پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے کھاتوں، آمدنی کی تفصیل اور اس کے ذرائع کی نشاندہی چارٹر ڈ اکائونٹینٹ کی پڑتال کے بعد کمیشن میں جمع کرائیں۔ قاعدہ پانچ کے تحت گوشواروں میں تمام مالی ادائیگیوں کی تفصیل بیان ہوتی ہے جبکہ قاعدہ چھ کے تحت الیکشن کمیشن کو یہ فیصلہ کرنے کا بھی اختیار حاصل ہے کہ کیا یہ وسائل قانون کے مطابق درست ہیں یا قاعدہ چھ (تین) کی روشنی میں ممنوعہ کے ذیل میں آتے ہیں۔ کمیشن اختیار رکھتا ہے کہ قانون اور قاعدہ کی روشنی میں ممنوعہ شق کی ضد میں آنے والی رقوم کو بحق سرکار ضبط کرلے۔ تحریک انصاف کے اس اعتراض کہ گوشوارے پیش کرتے وقت ان کی پڑتال ہوسکتی تھی اور اب ماضی کے گوشواروں کی جانچ نہیں ہوسکتی، کمیشن نے اپنے تحریری فیصلہ میں کہاکہ گوشوارے جمع کراتے وقت اگر ان کی جانچ پڑتال نہیں ہوسکی تو بعدازاں ایسا کیاجاسکتا ہے ۔ کمیشن کا اختیار ختم نہیں ہوجاتا کیونکہ قانون کے تحت اس پر کہیں پابندی عائد نہیں کی گئی اور کمیشن اس ضمن میں اپنے اختیار کو کسی بھی وقت بروئے کار لاسکتا ہے۔تحریری فیصلہ کے مطابق 10 نومبر کو آئندہ سماعت پر تحریک انصاف کے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کی جائے گی۔ پٹیشن دائر کرنے والے اکبر ایس بابر نے گفتگوکرتے ہوئے کہاکہ یہ کیس سیاسی جماعتوں کو قانون اور متعلقہ ضابطوں کے تحت لانے کے حوالہ سے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ جماعتوں کو غیرقانونی طور پر ملنے والی فنڈنگ اور غیرممالک سے آنے والے وسائل قومی سلامتی کا معاملہ ہے کیونکہ غیرقانونی فنڈنگ کے ذریعے سیاسی جماعتوں کو ملک میں انتشار پھیلانے کے لئے بھی خدانخواستہ استعمال کیاجاسکتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ قانون کے تحت منی لانڈرنگ سمیت ان تمام غیرقانونی مالی ذرائع کی سختی سے روک تھام ہونی چاہیے جس سے ملکی سلامتی پر کوئی حرف آسکتا ہو۔ اکبر بابر نے چئیرمین تحریک انصاف عمران خان سے مطالبہ کیا کہ پی ٹی آئی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے سے پہلے حیلے بہانے ترک کرکے سچائی کا سیدھا راستہ اختیار کریں اور الیکشن کمیشن کو رضاکارانہ طورپر خود درخواست دیں کہ وہ پارٹی کے تمام مالی معاملات کی فرانزک آڈٹ کرائے۔