کراچی (این این آئی)شہر قائد سے ایک کم عمر لڑکی زینب کامران کو مبینہ طور پر اغوا کیا گیا اور مظفر گڑھ، پنجاب لے جایا گیا جہاں اس کا جعلی سازی کے ساتھ نکاح پڑھوایا گیا، سندھ ہائیکورٹ میں یہ کیس آتے ہی سنسنی خیز انکشافات ہوئے ہیں۔کراچی سے کم عمر لڑکی کے مبینہ اغوا کے بعد مظفر گڑھ میں شادی کرانے کے کیس میں پولیس نے لڑکی کو پنجاب سے بازیاب کروا کر سندھ ہائیکورٹ میں پیش کر دیا، جہاں جسٹس ظفر احمد راجپوت نے لڑکی سے استفسار کیا کہ اس کی عمر کتنی ہے؟ زینب کامران نے کہا میری عمر 14 سال ہے اور مجھے بہلا پھسلا کر کراچی سے پنجاب بلایا گیا تھا۔لڑکی نے عدالت میں بیان دیا ملزمان نے سوشل میڈیا کے ذریعے مجھ سے رابطہ کیا تھا، 8 اپریل کو جعل سازی سے میرا نکاح پڑھایا گیا مگر تاریخ ایک دن پہلے کی درج کی گئی، میں والدین کے ساتھ جانا چاہتی ہوں۔عدالت نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ کیا انھوں نے لڑکی کا بیان ریکارڈ کیا ہے؟ تفتیشی افسر کے انکار پر عدالت نے آج ہی مجسٹریٹ کے سامنے 164 کا بیان قلم بند کرانے کا حکم دے دیا۔
عدالت نے کہا کہ مجسٹریٹ کے سامنے لڑکی کے بیان کی روشنی میں فیصلہ کیا جائے گا۔وکیل جبران ناصر نے عدالت کو بتایا کہ کم عمر لڑکیوں کو صوبے سے باہر لے جا کر سندھ کے قوانین کو غیر مثر کیا جا رہا ہے، سرکاری حکام سمیت منظم مافیا کم عمر لڑکیوں کی شادیوں میں ملوث ہے۔انھوں نے بتایا کہ سندھ حکومت کی قانون سازی کے مطابق لڑکی کی شادی کی عمر 18 سال ہے، عدالت سندھ سے کم عمر لڑکی کے اغوا اور پنجاب میں غیر قانونی شادی کی ڈکلریشن دے۔سندھ ہائیکورٹ نے کیس کی سماعت کے بعد 13 اکتوبر کو فریقین سے دلائل طلب کر لیے۔تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ انھوں نے پنجاب پولیس کی مدد سے لڑکی کو بازیاب کرایا، لیکن جب لڑکی کو واپس کراچی لا رہے تھے تو ملزمان نے جی ٹی روڈ پر حملہ کر دیا، لڑکی کو روکنے کے لیے ملزمان نے پولیس پر فائرنگ کر دی تھی، پولیس نے جواب میں ہوائی فائرنگ کی تو ملزمان بھاگ گئے۔تفتیشی افسر نے بتایا کہ ایک ملزم دوسری طرف سے آنے والی گاڑی سے ٹکرایا اور مر گیا۔
وکیل جبران ناصر نے عدالت کو بتایا کہ اغوا کاروں نے اس حادثے میں مرنے والے شخص کے قتل کا مقدمہ لڑکی کے والد اور پولیس کے خلاف درج کرا دیا ہے۔انھوں نے بتایا پنجاب پولیس نے کراچی پولیس کے اہلکاروں اور لڑکی کے والد کو حراست میں رکھا، کراچی پولیس کے اہلکاروں کو تو چھوڑ دیا گیا لیکن لڑکی کا والد اب بھی پنجاب پولیس کی حراست میں ہے، اس لیے لڑکی اور اس کے گھر والوں کو تحفظ فراہم کرنے کا حکم دیا جائے۔قائم مقام چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا مخالف پارٹی میں سے کوئی عدالت آیا ہے؟ پراسیکیوٹر نے بتایا کہ مخالف پارٹی کی جانب سے عدالت میں کوئی پیش نہیں ہوا ہے۔یاد رہے کہ 14 سالہ لڑکی زینب کامران کو بلوچ کالونی تھانے کے علاقے سے اغوا کر کے مظفر گڑھ منتقل کیا گیا تھا۔















































