واشنگٹن (نیوز ڈیسک) پاکستان کے حساس ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر اپنے سینئر چار ستارہ جرنیلوں کے ہمراہ اتوار کو چار روزہ دورہ امریکا کے بعد وطن پہنچے اور وزیراعظم نواز شریف نے پیر کی رات کے کسی وقت ان کی رپورٹ سننے کیلئے اپنے دورہ امریکا کیلئے روانگی میں تاخیر کرنا پڑی۔جنگ رپورٹر شاہین صہبائی کے مطابق امریکی یا پاکستانی سفارتی یا دفاعی حکام کی جانب سے اس دورے کے حوالے سے کوئی تبصرہ کیا گیا اور نہ ہی کوئی ذکر کیا گیا لیکن نیویارک میں موجود ایک انتہائی با اثر سابق پاکستانی سفارت کار کا کہنا ہے کہ آئی ایس آئی کے سربراہ نے جوہری پروگرام کے حوالے سے تازہ ترین امریکی تجاویز پر بات کی ہوگی اور ساتھ ہی پاکستان کے رد عمل سے بھی آگاہ کیا ہوگا۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل مندوب منیر اکرم نے اتوار کو مجھے بتایا کہ ان کے تجربے سے معلوم ہوتا ہے کہ جو معاملات امریکیوں نے اٹھائے ہوں گے ان پر پاکستان کی جانب سے پہلے ہی اپنے رد عمل کا اظہار کر دیا گیا ہوگا اور انہیں حیرت تھی کہ امریکا کی جانب سے انہی معاملات پر وزیراعظم نواز شریف کے دورہ امریکا کے موقع پر بات کرنے کیلئے کیوں اصرار کیا جا رہا ہے۔ منیر اکرم کے مطابق امریکا چاہتا ہے کہ اسلام آباد بھرپور قوت کے ساتھ حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرے، طویل اور کم فاصلے تک مار کرنے والے میزائل پروگرام پر کام کا سلسلہ روکے اور جوہری ہتھیار کی تیاری کیلئے ضروری سمجھا جانے والا مواد (فزل مٹیریل) کی پیداوار بند کرے اور لشکر طیبہ کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرے۔ میڈیا رپورٹس کا کہنا ہے کہ امریکا جوہری پروگرام کا دائرہ کار محدود کرنے کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ ”معاہدے“ پر غور کر رہا ہے۔ امریکا اسلحہ کنٹرول کے ماہر جارج پیرکووچ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ”اگر پاکستان امریکا کے بتائے ہوئے اقدامات پر عمل کرے گا تو یہ لازماً بحالی اور پیرول کا اعتراف ہوگا۔“ لیکن منیر اکرم کی دلیل ہے کہ پاکستان کسی ”جیل“ میں نہیں اور مجوزہ ”ڈیل“ سستا سودا نہیں ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے پاکستان سے کہا جائے کہ وہ امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات کے عوض اپنی قومی سلامتی پر سمجھوتا کر لے۔ اتوار کو شایع ہونے والے ایک آرٹیکل میں منیر اکرم نے تجویز دی کہ وزیراعظم کو چاہئے کہ وہ اپنا دورہ امریکا ملتوی کر دیں اور بعد میں ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے وضاحت کی کہ مسٹر شریف کا دورہ امریکا پاکستان اور امریکا دونوں کیلئے باعث ہزیمت ثابت ہو سکتا ہے۔ اب توقع ہے کہ وزیراعظم نواز شریف 20 اکتوبر کی دوپہر کو امریکا پہنچیں گے اور اسی رات وہ پاکستانی سفارت خانے میں 250 مہمانوں کے ساتھ رات کا کھانا کھائیں گے۔ کئی برسوں بعد یہ پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ ان کا پہلا رابطہ ہوگا۔ اس طرح کی دو تقریبات ان خدشات کی وجہ سے پہلے منسوخ کی جا چکی ہیں کہ کہیں تحریک انصاف کے حامی خرابی نہ پیدا کر دیں۔ چونکہ وزیراعظم نواز شریف اس موقع پر بات چیت کریں گے لیکن اس سے پہلے ہی وہ امریکی شخصیات کے ساتھ بھی واشنگٹن میں بات چیت شروع کر چکے ہوں گے، ممکن ہے کہ وہ اپنے دورے کے متعلق کچھ زیادہ نہ بول پائیں لیکن سفارت خانے میں ان کا خطاب واضح اشارے دے گا کہ دورے سے کون سے نتائج کی توقع ہے۔ یقیناً وزیراعظم کے بیانات اور جوابات کی بنیاد آئی چیف سے ملنے والی بریفنگ ہوگی، جو حال ہی میں دفاعی حکام اور سیکورٹی اداروں سے تبادلہ خیال کے بعد امریکا کے دورے سے واپس آئے ہیں۔ آئی ایس آئی چیف کادورہ امریکا غیر معمولی انداز سے زیادہ طویل تھا اور یہاں یہ بات یاد آ رہی ہے کہ سابق آئی ایس آئی چیف جنرل پاشا رات کو امریکا کیلئے روانہ ہوئے تھے اور اگلی صبح سی ا?ئی اے حکام کے ساتھ ملاقاتیں کیں اور اس کے فوراً بعد انہوں نے واپسی کی پرواز لی۔ منیر اکرم اس وقت زیادہ سرگرم نظر آئے جب حال ہی میں وزیراعظم نواز شریف ایک ہفتے سے زائد عرصہ کیلئے نیو یارک میں تھے۔ منیر اکرم سفارت کاری اور قومی سلامتی کے امور کی معلومات رکھتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ واشنگٹن میں بھارتی لابی بہت مضبوط ہے اور اس وقت جوہری امور کا معاملہ اٹھا کر اوباما انتظامیہ غیر ضروری طور پر پاکستان اور شریف حکومت پر بہت زیادہ دباﺅ ڈال رہی ہے۔ اتوار کو شایع ہونے والے ا?رٹیکل میں سابق سینئر سفارت کار منیر اکرم نے انکشاف کیا تھا کہ ”گزشتہ ماہ نیویارک میں جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کے دوران عمومی طور پر متحمل مزاج سمجھے جانے والے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے تاکیدی رویہ رکھا اور مبینہ طور پر وزیراعظم پاکستان سے مخاطب ہوتے ہوئے ان کا نام لیا اور نام لینے سے قبل میز پر زور سے مکا مارتے نظر ا?ئے۔ پاکستان کے خارجہ سیکریٹری کے ساتھ ملاقات کے موقع پر امریکی صدر بارک اوباما کے خصوصی معاون بھی زیادہ جارحانہ رویہ رکھے ہوئے نظر آئے۔ واشنگٹن میں موجود سفارتی مبصرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دورہ امریکا سے نواز شریف کو ہزیمت اٹھانا پڑ سکتی ہے، جس کا ذکر منیر اکرم نے بھی کیا ہے، کیونکہ وہ ایسی کوئی بات کہنےکی پوزیشن میں نہیں ہوں گے جو امریکا سننا چاہتا ہے۔ لیکن پریشان کن بات یہ ہے کہ یہ تمام حقائق معلوم ہونے کے باوجود اور ساتھ ہی آئی ایس آئی چیف سے حال ہی میں واضح جواب ملنے کے باوجود، امریکا اب بھی یہ معاملات اٹھانا چاہتا ہے اور یہ مطالبات پیش کرنا چاہتا ہے۔ ”یہ ایک اچھا دوستانہ اشارہ نہیں ہو سکتا کیونکہ مسٹر شریف کو کوئی نہ کوئی موقف پیش کرنا ہوگا جس پر انہوں نے پہلے ہی سیاسی، عسکری اور سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ سے مل کر طے کرلیا ہے اور ایسے میں بڑا سا انکار کرکے مسٹر شریف واضح جواب دیں گے۔ تو انہیں ہزیمت کیوں اٹھانا پڑے۔“ یہ تمام تر صورتحال ذہن میں رکھتے ہوئے مسٹر شریف کا دورہ امریکا پہلے ہی تین دن کیلئے کم ہو چکا ہے۔ وہ ایک دن تاخیر سے روانہ ہوں گے، 20 اکتوبر کو پہنچیں گے، اسی رات پاکستانی کمیونٹی سے رات کے کھانے کے موقع پر خطاب کریں گے اور زیادہ تر ملکی سیاسی امور اور اپنی اقتصادی کامیابیوں پر بات کریں گے، 21 تاریخ کو وہ امریکی رہنماﺅں سے ملاقات کریں گے اور اگلے دن صدر اوباما سے ملاقات کیلئے وائٹ ہاﺅس جائیں گے۔ پاکستانی اور امریکی میڈیا کے ساتھ مختصر بات چیت کیلئے پروگرام پر غور کیا جا رہا ہے لیکن ایسا ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی کیونکہ تمام اطراف سے سوالات سخت ہوں گے اور وزیراعظم نواز شریف ویسے ہی ہزیمت سے بچنے کی کوشش کریں گے جیسا انہوں نے حالیہ نیو یارک دورہ کے موقع پر کیا۔ تاہم، سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری، سفیر جلیل عباس جیلانی روزانہ کی بنیاد پر مہنگے ترین ویلارڈ ہوٹل میں قائم خصوصی میڈیا سینٹر میں پاکستانی میڈیا کو بریف کریں گے۔