یران پر جاری اسرائیلی حملوں کے پس منظر میں بھارت کی شراکت داری سے متعلق دعوے شدت اختیار کر چکے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اسرائیل کو ایران کے خلاف کارروائیوں میں انٹیلیجنس تعاون بھارت کی جانب سے فراہم کیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا اور غیر مصدقہ ذرائع میں گردش کرنے والی خبروں کے مطابق، بھارتی خفیہ ادارہ “را” (RAW) ایران سے متعلق حساس معلومات اسرائیل کے ساتھ شیئر کر چکا ہے۔
دہلی اسمبلی میں حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی ایک رکنِ اسمبلی نے اسرائیلی حملوں میں معاونت پر وزیراعظم نریندر مودی کو مبارکباد پیش کی اور کہا کہ “یہ پہلا موقع ہے جب موجودہ حکومت نے کوئی قابلِ ذکر کام کیا ہے”۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ بھارت کی خفیہ سرگرمیاں ایران میں ترقیاتی منصوبوں کی آڑ میں کئی برسوں سے جاری ہیں۔ چاہ بہار بندرگاہ، توانائی کے شعبے، گیس اور دیگر بنیادی ڈھانچوں کے منصوبے انٹیلیجنس نیٹ ورکس کے لیے راہ ہموار کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ انہی راستوں کو استعمال کر کے بھارتی ایجنٹس نے ایران میں خفیہ نیٹ ورک قائم کیے۔
ایران میں جاری ان حملوں کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے یہ سوال شدت اختیار کر رہا ہے کہ اسرائیل کو ایرانی سرزمین کے حوالے سے اتنی تفصیلی اور بروقت معلومات کس نے فراہم کیں؟ کیا صرف سیٹلائٹ یا ڈیجیٹل نقشے اتنی درستگی سے اہداف کی نشان دہی کر سکتے ہیں؟ ان سوالات کا جواب یہی سامنے آتا ہے کہ ایک مربوط جاسوسی نیٹ ورک بھارت کے ذریعے فعال کیا گیا، جس نے اسرائیلی کارروائیوں کو مؤثر بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
یہ بھی سامنے آیا ہے کہ را کے حمایت یافتہ افراد ایران کے خلاف میڈیا میں نفرت انگیز بیانات دے رہے ہیں۔ بھارتی دفاعی تجزیہ کار اور را سے وابستہ میڈیا شخصیت میجر گورو آریا نے ایرانی وزیر خارجہ کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی، جس سے اس گٹھ جوڑ کی سنگینی اور بھارت کے عزائم واضح ہو جاتے ہیں۔
موجودہ صورتحال میں یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ اسرائیل اور بھارت کا اشتراک صرف سفارتی حدود تک محدود نہیں رہا بلکہ اب وہ انٹیلیجنس اور عسکری دائرے میں بھی ایک دوسرے کا بھرپور ساتھ دے رہے ہیں۔ ایران کے لیے یہ ایک خطرناک لمحہ فکریہ ہے کہ اس کے دیرینہ تعلقات رکھنے والے ملک نے ہی اس کی سالمیت کے خلاف کردار ادا کیا۔
مسلم دنیا کو اب اس اشتراک پر کھلی آنکھوں سے نظر رکھنی ہو گی، کیونکہ اگر آج خاموشی اختیار کی گئی تو کل کسی اور اسلامی ملک کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ ایران کے لیے وقت ہے کہ وہ اس دوستی کے پردے میں چھپے خطرات کو پہچانے اور اپنی خودمختاری کے دفاع کے لیے مؤثر حکمت عملی اپنائے۔