اسلام آباد (این این آئی) پی ٹی آئی رہنماء و رکن قومی اسمبلی شیر افضل مروت نے انکشاف کیا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے دوران پی ٹی آئی کے منحرف ایم این ایز کی تعداد 21 ہے۔ نجی ٹی وی پروگرام سے گفتگو کرتے ہوئے رہنماء پی ٹی آئی شیر افضل مروت نے کہا کہ میرے پارٹی میں کوئی اختلافات نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے نو مئی سے 11 اپریل تک احتجاج کیا، 11 اپریل کے بعد مجھے احتجاج کی ذمہ داریوں سے علیحدہ کیا گیا، علی امین گنڈاپور نے پانچ احتجاج کئے، انہوں نے انفرادی طور پر احتجاج کئے کیونکہ قیادت آپ کو اس کے ساتھ نظر نہیں آئی، وہ 70،80ہزار لوگوں کو ڈی چوک تک لے آئے یہ ان کی بہت بڑی کامیابی تھی۔
شیر افضل مروت نے کہا کہ کوئی پلان بی بھی ہونا چاہئے تھا، خیبرپختونخوا ہاؤس پر جب ریڈ ہوئی تو کوئی پلان بی ہوتا کوئی متبادل قیادت ہوتی تو ان کو احتجاج ٹیک اوور کرنا چاہئے تھا، اتنی تعداد میں لوگوں کی آمد ان کا مار کھانا اور گرفتاری بے نتیجہ رہی۔انہوں نے کہا کہ 15، 20 ایم این ایز بھی آجاتے تو پورا پاکستان امڈ آتا، میں نے تجویز دی تھی کہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کو آپ بیک اپ میں رکھیں۔شیر افضل مروت نے کہا کہ آئینی ترمیم کی منظوری کے دوران ہمارے جن منحرف 11 لوگوں کی فہرست سامنے آئی، اس رات ہمیں ہولناک انکشاف یہ بھی ہوا کہ کوئی چھ سات لوگ اور بھی تھے جو حکومت کے ساتھ رابطے میں تھے۔انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن کیساتھ حکومتی اتحاد کی بارگیننگ آخری لمحات تک جاری تھی ،انہیں خدشہ تھا کہ کسی اسٹیج پر اگر یہ ناکام ہوجاتے تو پھر یہ 12 منحرف اراکین سامنے لائے جاتے، مولانا فضل الرحمان اگر نہ مانتے تو ہمارے یہ 21 اراکین پورے بے نقاب ہوجاتے۔
انہوں نے کہا کہ تمام شواہد ان منحرف اراکین کیخلاف جاتے ہیں، پارٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ تمام ایم این ایز کو ہم خیبر پختونخوا شفٹ کرتے ہیں اور جو بیرون ملک تھے انہیں منع کیا کہ مت آئیں، وہ آئے اور ان کی گود میں بیٹھ گئے جو کے پی میں تھے وہ چوری چھپے نکل گئے ان کے پاس آگئے، کوئی وضاحت ان کے پاس نہیں ہے کہ آپ نکلے کیوں۔انہوں نے کہا کہ منحرف اراکین کی ڈیل نہ پیپلز پارٹی کے لوگوں کے کرائی ہے نہ نون والوں نے کرائی ہے، تقریباً ہر ایم این اے تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی گئی، دو ارب روپے تک آفر ہوئے اور دیئے بھی گئے، یہ چار نے جو ووٹ دیا وہ فی سبیل اللہ تو نہیں دیا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ خان صاحب کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کی اہلیہ، بہنیں یا اہل خانہ کسی احتجاج کی قیادت کریں، اگر خان کی یہ نیت ہوتی تو جس رات انہوں نے فیصلہ کیا کہ میں بیرسٹر گوہر کو چیئرمین نامزد کرتا ہوں، اس وقت انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں یہ بھی کہا تھا کہ میرے گھر کا کوئی فرد پارٹی الیکشن میں امیدوار نہیں بنے گا۔چھبیسویں آئینی ترمیم میں چیلنج نہ کئے جاسکنے کی شق پر انہوں نے کہا کہ اگر دوتہائی اکثریت یہ منظور کرلے کہ پاکستان میں مردوں کو نامردگی کے انجکشن لگوائے جائیں گے تو کیا اسے چیلنج نہیں کیا جاسکے گا؟۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کی لیگل ٹیم اب محدود ہوگئی ہے، زیادہ تر کیسز بیرسٹر علی ظفر اور سلمان صفدر کے پاس ہیں، کچھ کیسز میں اور سلمان اکرم راجہ دیکھ رہے ہیں۔