ہفتہ‬‮ ، 11 جنوری‬‮ 2025 

الطاف حسین کا قتل، مشرف کی پیشکش،چوہدری نثار کے انکشافات پر تنازعہ کھڑاہوگیا

datetime 2  اکتوبر‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کراچی(نیوزڈیسک) وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اپنے چند برس قبل کے کہے پر قائم ہیں کہ سابق صدر پرویز مشرف نے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی موجودگی میں الطاف حسین کے بارے میں جو کچھ کہا تھا، اس پر کیا ریٹائرڈ جنرل کا احتساب نہیں ہونا چاہئے؟ آیا انہوں نے اپنے دور اقتدار میں ایم کیو ایم کو استعمال نہیں کیا؟ اس پر پرویز مشرف کا بیان آنا چاہئے۔ بدھ کو الطاف حسین نے اپنے پارٹی رہنمائوں اور کارکنوں سے بات چیت میں اپنے لندن میں قتل کر دیئے جانے کا خدشہ ظاہر کیا اور الزام عائد کیا کہ قتل کی سازش حکومت اور اسٹیبلشمنٹ نے تیار کی ہے۔ وجہ تنازع چوہدری نثار علی خان کا وہ وڈیو کلپ ہے جس میں وزیرداخلہ نے شہباز شریف کی موجودگی میں پرویز مشرف کے ساتھ اپنی ملاقات کا ذکر کیا۔ جس میں سابق جنرل نے ایم کیو ایم کو نہ صرف مافیا اور الطاف حسین کو اس کا لیڈر قرار دیا بلکہ ان سے چھٹکارے کی بھی بات کی۔ جب چوہدری نثار نے پرویز مشرف کو اس کے انجام سے خبردار کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ چھٹکارا حاصل کرنے کے بھی طریقے ہوتےہیں۔ بدھ کی شب رابطہ کرنے پر چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ وہ اپنے کہے پر قائم ہیں اور میں وہ شخص نہیں جو جھوٹے بیانات جاری کرتا ہو۔ یہ وزیرداخلہ کا فوری ردّعمل تھا۔روزنامہ جنگ کے خصوصی تحقیقاتی صحافی مظہرعباس کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ جب یہ بیان دیا گیا تھا، اس وقت پرویز مشرف صدر تھے اور انہوں نے میرے کہے کی کوئی تردید نہیں کی۔ چوہدری نثار کے مطابق شاہ زیب خانزادہ کے شو میں جو کلپ دکھائی گئی، اس کا تعلق ان کے انٹرویو سے نہیں تھا۔ ان تمام برسوں میں ایم کیو ایم پرویز مشرف کی اتحادی رہی اورکبھی یہ ایشو نہیں اُٹھایا۔ وزیرداخلہ نے کہا کہ اب جبکہ وہ مشکل میں اور انہیں مسائل کا سامنا ہے تو وہ بے بنیاد الزامات کے ساتھ سامنے آ رہے ہیں۔ ایم کیو ایم اور الطاف حسین نے شاید بے جا ردعمل کا اظہار کیا لیکن اس کی پرویز مشرف کی جانب سے وضاحت ہونی چاہئے کیونکہ چوہدری نثار کہتے ہیں کہ وہ اپنے بیان پر قائم ہیں۔ گوکہ یہ پرانا وڈیو کلپ ہے لیکن اگر اس سے کوئی نیا تنازع اُٹھ کھڑا ہوتا ہے تو یہ غلط بھی نہیں ہوگا کہ حکومت تحقیقات کا حکم دے، پرویز مشرف اور دیگر متعلقہ افراد کے بیانات لے، لیکن ایم کیو ایم کو بھی بیان دینا چاہئے کہ اس نے 2008ء میں یہ ایشو کیوں نہیں اُٹھایا؟ جب وہ نہ صرف مشرف حکومت اور بعدازاں پیپلزپارٹی کی مخلوط حکومت کا بھی حصہ رہے۔ گزشتہ چند ماہ سے الطاف حسین شدید دبائو میں ہیں۔ ان کا حالیہ خطاب لاہور ہائیکورٹ میں دائر ایم کیو ایم کی اپیل پر منفی اثرات مرتب کر سکتا ہے، لہٰذا ایم کیو ایم کے قائد کو ایک یاد دو ٹاک شوز کی بنیاد پر اگر کوئی خدشہ یا خطرہ ہے تو انہیں اتنا سخت بیان جاری کرنے اور الزامات لگانے کی ضرورت نہیں تھی۔ تاہم اگر ان کے پاس مزید اطلاعات معلومات یا رپورٹ ہے تو حکومت معاملے کی تحقیقات کرسکتی ہے۔ دوسرے ایم کیو ایم کے قائد اپنے خدشات کے حوالے سے برطانوی حکومت اور میٹروپولیٹن پولیس کو بھی لکھ سکتے ہیں۔ آخر کار وہ برطانوی شہری بھی تو ہیں۔ ایم کیو ایم کے سینئر رہنماء وسیم اختر نے جمعرات کو اس معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا، وہ خصوصاً چوہدری نثار پر نکتہ چیں رہے لیکن پرویز مشرف پر کسی تنقید سے احتراز کیا۔ یہ ایم کیو ایم اور خصوصاً الطاف حسین کے لئے بڑا کڑا وقت ہے، جنہیں ایک سنگین منی لانڈرنگ کیس کا سامنا ہے۔ جس کی آئندہ سماعت 5 اکتوبر کو ہوگی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ الطاف حسین کو اپنی ضمانت میں توسیع ملتی ہے، فردجرم عائد ہوتی یا الزامات ختم کر دیئے جاتے ہیں۔ لیکن اس کیس کے نتیجہ کے ایم کیو ایم کی سیاست اور الطاف حسین کے مستقبل پر اثرات مرتب ہوں گے۔ اسی روز یعنی پیر 5 اکتوبر کو چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی ایم کیو ایم کے سینیٹرز کے استعفوں پر اپنی رولنگ دیں گے۔ اس کے 25 ارکان قومی اسمبلی اور 51 ارکان سندھ اسمبلی کے استعفے التواء میں ہیں۔ حکومت اور ایم کیو ایم کے درمیان تعطل کی کیفیت اس وقت سے ہے جب ایم کیو ایم نے اپنے تین مطالبات کے پورے ہونے تک بات چیت کا دروازہ بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ جس میں سے الطاف حسین کے خطابات پرعائد پابندی اُٹھانے کا بھی مطالبہ شامل تھا۔ حالیہ تنازع اور الطاف حسین کی جانب سے اپنے قتل کی سازش کے حوالے سے سخت بیان کے بعد بات چیت کے امکانات مزید کم ہوگئے ہیں۔ اب الطاف حسین اور ایم کیو ایم یہاں سے کہاں جائیں گے؟ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے لئے ایم کیو ایم مخالف اتحاد اور خصوصاً حیدرآباد اور کراچی اس کے قائم ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ ایم کیو ایم بمقابلہ باقی تمام۔ ماضی میں بھی ایسے اتحادوں کے باوجود ایم کیو ایم کا کچھ نہیں بگڑا تھا لیکن اس بار صورتحال مختلف اور مشکل بھی ہے۔ شہری سندھ کے علاقوں میں پیپلزپارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی، جے یو آئی (ف)، اے این پی اور سنی تحریک بلدیاتی انتخابات کے لئے متحد ہو رہے ہیں۔ مضبوط ایم کیو ایم کے لئے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی نہایت اہمیت کی حامل ہے، لہٰذا ان حالات میں الطاف حسین کی جانب سے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر الزامات سے انہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ خصوصاً ایسی صورت میں جب ان کے پاس ٹھوس ثبوت نہ ہوں اور الزامات اور خدشات یعنی چوہدری نثار علی خان جیسے شخص کے ایک پرانے انٹرویو کی بنیاد پر ہوں۔ کراچی آپریشن کے بارے میں اسٹیبلشمنٹ کا موڈ وہ پہلے ہی دیکھ چکے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ سندھ حکومت ان کے کارکنوں کو بچانے کے لئے سامنے نہیں آئی۔ چرم قربانی اکٹھا کرنے کے حوالے سے ان کے احتجاج کو سنا نہیں گیا۔ اس طرح وہ اپنے آپشنز کھوتے جا رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کو بلدیاتی انتخابات میں مشکل پڑ سکتی ہے۔ خصوصاً جب 3 دسمبر کو کراچی میں بلدیاتی انتخابات ہوں گے۔تمام تر مشکلات کے باوجود کیا ایم کیو ایم ناظم کراچی کا عہدہ جیت سکتی ہے؟ اس کے لئے بہتر ہوگا کہ وہ سیاست کے مرکزی دھارے میں واپس آ جائے۔ بجائے اس کے کہ کسی ایسے ’’خوف‘‘ کا اظہار کریں جس کا دیگر حلقوں کی جانب سے کوئی سخت جواب نہیں آ رہا۔ ایم کیو ایم کو انتہائی احتیاط سے زمینی حقائق کا ادراک کرنا ہوگا۔ اسی طرح پیپلزپارٹی جس نے کراچی آپریشن کے بعد سے اب تک ایم کیو ایم سے فاصلہ اختیار کر رکھا ہے، اس کے لئے بھی آپشن کم ہوتے جا رہے ہیں، کیونکہ اس کے خلاف کیسز دوبارہ کھول دیئے گئے ہیں۔ اگر مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو ایم کیو ایم سے اس کے ارکان کو پارلیمنٹ میں واپس لانے کیلئے مذاکرات شروع کرنے میں دلچسپی نہیں تو اسے پوزیشن لینی چاہئے لیکن پاکستان کی چوتھی، سندھ کی دوسری اور کراچی کی سب سے بڑی جماعت کو باہر رکھنے سے جمہوری عمل میں کوئی مدد نہیں مل سکتی۔ لہٰذا ایم کیو ایم اور دیگر جماعتوں کے لئے وقت ہے کہ اپنی پوزیشن کا جائزہ لے کر کرائم اور کرپشن کو سیاست سے دور رکھنے کیلئے واضح میکانزم طے کریں، لیکن کیا وہ ایسا کرسکتے ہیں؟



کالم



آپ افغانوں کو خرید نہیں سکتے


پاکستان نے یوسف رضا گیلانی اور جنرل اشفاق پرویز…

صفحہ نمبر 328

باب وڈورڈ دنیا کا مشہور رپورٹر اور مصنف ہے‘ باب…

آہ غرناطہ

غرناطہ انتہائی مصروف سیاحتی شہر ہے‘صرف الحمراء…

غرناطہ میں کرسمس

ہماری 24دسمبر کی صبح سپین کے شہر مالگا کے لیے فلائیٹ…

پیرس کی کرسمس

دنیا کے 21 شہروں میں کرسمس کی تقریبات شان دار طریقے…

صدقہ

وہ 75 سال کے ’’ بابے ‘‘ تھے‘ ان کے 80 فیصد دانت…

کرسمس

رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…