نئی دلی (نیوزڈیسک)بھارت کی مشرقی ریاست چھتیس گڑھ کے سکولوں میں بچوں کو پڑھایا جا رہا ہے کہ جب سے عورتوں نے کام کرنا شروع کیا ہے، مردوں میں بے روزگاری کا تناسب بڑھ گیا ہے۔ریاست کی جانب سے شائع کردہ دسویں کے بچوں کے لیے لازمی معاشرتی سائنس کی کتاب میں ’اقتصادی مسائل اور چیلنج‘ کے عنوان سے ’بے روزگاری کی نو وجوہات‘ بیان کی گئی ہیں جن میں سے ایک خواتین کی طرف سے کام ہے۔اس متن میں کہا گیا ہے کہ ’آزادی سے پہلے بہت کم خواتین ملازمت کرتی تھیں لیکن آج تمام شعبوں میں خواتین کام کرنے لگی ہیں، جس سے مردوں میں بے روزگاری کا تناسب بڑھا ہے۔ریاست کے جش پور علاقے کی ایک استانی سومیا گرگ اس کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں۔سومیا نے کہا کہ ملک کا آئین عورتوں کو برابری کی ضمانت دیتا ہے یہ سوال اٹھنا ہی نہیں چاہیے کہ مردوں میں بے روزگاری بڑھی ہے یا عورتوں میں۔ بے روزگاری کا مسئلہ جتنا مردوں کے لیے ہے اتنا ہی عورتوں کے لیے بھی ہے۔سومیا مستقل ملازم نہیں بلکہ رضاکارانہ طور پر سکول میں پڑھاتی ہیں۔جب انھوں نے معاشرتی علوم کی ایک کتاب سے روزگار کے بارے میں پڑھانا شروع کیا تو دنگ رہ گئیں۔ان کا کہنا ہے کہ بچوں کو پڑھاتے وقت اساتذہ کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ بچوں کو کوئی غلط پیغام تو نہیں دے رہے۔کتاب میں بےروزگاری کی آٹھ دیگر وجوہات بھی بیان کی گئی ہیں، جیسے آبادی میں اضافہ یا صنعت کاری کی سست رفتار۔سومیا گرگ کا کہنا ہے کہ عورتیں ملک کی ترقی میں برابر کی شریک ہیں اور ان کے خلاف تعصب کو معاشرے سے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔سومیا نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر کے ذریعہ اپنا پیغام صحافیوں اور وزیر تعلیم سمرتی ایرانی سمیت اعلیٰ سیاسی قیادت تک پہنچایا ہے، لیکن فی الحال انھیں کوئی جواب نہیں ملا ہے۔