لندن(نیوزڈیسک)برطانیہ میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے 11سال تک کی عمروں کے نصف کے قریب بچے پرائیویٹ ٹیوشن بھی پڑھتے ہیں اور ان کی کارکردگی مقامی سفید فام بچوں کے مقابلے میں بہت بہتر ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تین نسلی گروپوں چینی، سیاہ فام اور بھارت سے تعلق رکھنے والے 11سال کی عمروں کے بچے مقامی بچوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر طورپر ہوم ورک بھی کرتے ہیں جبکہ پاکستانی ماہرین تعلیم اور سوشل ورکرز کا کہنا ہے کہ پاکستانی والدین اپنے بچوں پر اس طریقے سے توجہ نہیں دے رہے جس طرح چینی اور بھارتی والدین دے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک زمانے میں پہلے اور دوسرے نمبر پر رہنے والے پاکستانی بچے اب بہت نیچے چلے گئے ہیں۔ خاص طورپربریڈفورڈ ، لندن، برمنگھم اور مڈلینڈز کے دوسرے علاقوں میں ان کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی بچے بنگلہ دیشی بچوں سے بھی بری کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق حال ہی میں حکومت کی جانب سے پرائمری ٹیسٹ ڈیٹا جاری کیا گیا ہے جس میں چینی اور انڈین بچوں نے غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ نیو کاسل یونیورسٹی کی جانب سے کی گئی ریسرچ میں کہا گیا ہے کہ سات سال کی عمر میں بھارتی بچوں میں ٹیوشن بہت زیادہ نظر آتی ہے۔ ہر پانچ میں سے ایک بچہ ٹیوشن لیتا ہے 11 سال کی عمر میں چینی گروپ کے 48 فیصد بچے 47 فیصد سیاہ فام اور 42 فیصد انڈین بچے ٹیوشن حاصل کرتے ہیں 11سال کی عمر کے نسلی اقلیتوں کے بچے اوسطا ہر ہفتے 5گھنٹے ہوم ورک پر صَرف کرتے ہیں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2014 میں چین سے تعلق رکھنے والے35فیصد 11سال کے بچوں نے میتھ ٹیسٹ میں لیول 6 حاصل کیا۔ اس حوالے سے پروفیسر لزٹوڈ کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ میں مختلف نسلی گروپوں کی کارکردگی کے بارے میں مختلف سوالات سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ اس سے