لاہور( این این آئی)پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما و سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ پاکستان میں ادارے آمنے سامنے ہیں، عدلیہ اور بیوروکریسی میں اصلاحات نہیں کریں گے تو ملک نہیں چلے گا،ملکی مسائل کی وجہ لیڈرشپ اور نظام کی ناکامی ہے، ہم رولز آف بزنس بھی تبدیل نہیں کرسکے، جب تک ہم اکٹھے نہیں ہوں گے معاملات ٹھیک نہیں ہوں گے
مصنوعی لیڈرشپ ملک کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے،نظام اتنا کرپٹ اور فرسودہ ہوچکا ہے کہ ڈلیور نہیں کرسکتا، 84 ارب روپے آٹے کی مد میں خرچ کیے جس میں سے 20 ارب کی کرپشن ہوگئی،نئے صوبے بنا دیں کیونکہ صوبوں کا نظام نہیں چل رہا ،آپ نے کالا باغ ڈیم نہیں بنا یا آج تک بھگت رہے ہیں یہ بھی نہ بنائیں، کم از کم صوبائی اتھارٹی کو ضلع اور تحصیل تک لے کر جائیں آپ کا نظام چل جائے گا،ا نصاف کا نظام سب کے سامنے ہے ،ایک ٹروتھ کمیشن بنا دیا جائے تاکہ پتہ چلے یہاں کیا ہوتا رہا ہے ۔ان خیالات کا اظہار انہوںنے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں ’’ری ایمیجنگ پاکستان‘‘کے زیر اہتمام سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔اس موقع پر سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل ،سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر اور دیگر نے بھی خطاب کیا ۔شاید خاقان عباسی نے کہا کہ پارلیمان سے حکومت بنتی ہے اور جو لوگ پارلیمان میں آئیں گے وہی کل حکومت میں جائیں گے ،کابینہ وہیں سے بنے گی وہیں سے وزیر اعظم اور وزیر آئیں گے، پارلیمان میں چالیس فیصد ممبران کو سیاسی جماعت اوپر لا سکتی ہے جبکہ باقی ساٹھ فیصد منتخب ہوتے ہیں ، چالیس فیصد ممبران کسی شخص کو آگے لا سکتے ہیں، وہ دس ممبر ان کی کابینہ نہیں بنا سکتے ۔انہوں نے کہا کہ یہاں الیکشن پر الیکشن چوری ہوتا رہا ، ایسے لوگوں کو لایا گیا جو پارلیمان میں بیٹھنے کی اہلیت رکھتے تھے اور نہ ان کی قابلیت ہے
انہیں وہاں ہونا نہیں چاہیے جو اس ملک کے لیڈر ہیں۔ جب آپ مصنودی لیڈر لائیں گے تو یہ نقصان ہوگا اور اس نقصان کو بھگت رہے ہیں،سیاسی لیڈر شپ اور سیاسی جماعت ہی رہتی ہے ، میں نے اپنی سیاسی زندگی میں چوبیس چیف جسٹس دیکھے ہیں ، کئی آرمی چیفس، ڈی جیز آئی ایس آئی آئے ،ہزاروں بیو کریٹس دیکھتے ہیں جو چلے گئے ہیں ہم یہی ہیں
سیاسی نظام کمزور ہو جاتا ہے جب سیاستدانوں کی قابلیت صلاحیت ختم ہو جاتی ہے ، پھر وہ ملک نہیں چالتے ،ہم آج اسی کیفیت کاشکار ہیں،اس معاملے کو کیسے درست کریں گے؟۔ آج نظام ایڈ منسٹریٹو نہیں رہا ،ہم اس بات کو نہیں سمجھ سکے کہ اب دنیا بدل گئی ،جب تک سیاسی لیڈر شپ وژن نہیں دے گی سیکرٹری نظام نہیں چلا سکتا ،آپ کا نظام نہیں چلے گا۔ درستگی صرف سیاسی لیڈر شپ کا کام نہیں سب کو ذمہ داری نبھانا ہو گی
جو لوگوں کوکامیاب کراتے ہیں ہراتے ہیں نا اہل کراتے ہیں نظام ایسا بنا دیتے ہیں کہ وہاں کام کرنے والا آدمی نکل جاتا ہے یا مایوس ہو جاتا ہے ، اگر ملک میں حقیقی سیاسی لیڈر شپ نہیں ہو گی معاملات آگے نہیں چلیں گے۔ ہم بیورو کریسی میں قابل ترین لوگوں کو میرٹ پر لیتے ہیں لیکن وفاق کا افسر تحصیل میں کیا کر رہا ہے، وفاق میں جا کر کام کریں ، وفاقی افسر وفاق میں آتا نہیں ہے اورساری زندی صوبے میں گزارتا ہے کیونکہ وہاں گھر اور تنخواہ بہتر ہے ، اکیس سے بائیسویں گریڈ میں وفاق میں آتا ہے
ہم آج تک رولز آف بزنس تبدیل نہیں کر سکے ، نیب کی وجہ سے حالت یہ ہے کہ سیکرٹری وزیر اعظم کو کہتے ہیں میں یہ سمری نہیں بنا سکتا مجھے نیب پکڑ کر لے جائے گا، یا اس میں وکیل کی فیس بھی ڈال دیں یہ کیس نیب میں نکلنا ہی نکلنا ہے ۔ جو سیکرٹری وفاق میں آیا نہیں وہ نیب سے خوفزدہ ہے آپ نظام کیسے چلائیں گے، ہمارے اندر اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ ہم رولز آف بزنس ہی تبدیل کر لیتے نہیں کیا ،وزار ت کا ذمہ دار وزیر ہوگا لیکن یہاں سیکرٹری ہے ، سیکرٹری کے ذریعے وزارت کو چلایا جائے یہ نہیں چلتی
اربوں روپے کے فیصلے سامنے نظر آتے ہیں لیکن ہوتے نہیں ہیں ، ہم جب تک بیورکریسی کے نظام میں ریڈیکل ریفارمز نہیں کریں گے معاملہ نہیں چلے گا،وفاقی حکومت سپیشلائزڈ سروسز بنائے کیونکہ یہ پیچیدہ مسائل ہیں ، جب چلانے والے ہیں درست نہیں کریں گے ملک کا نظام نہیں چلے گا۔ پنجاب میں ایک سیکرٹری چھ ماہ سے زیادہ نہیں گزارتا ہے ،ڈپٹی کمشنر ، کمشنر چار پانچ مہینے میں تبدیل ہوجاتا ہے ،ہمیں یہ خرابیاں دور کرنا ہوں گی ،اگر یہ نہیں کریں گے تو ہم لوگوں کو کیا ڈلیور کریں گے
نظام ڈلیور نہیں کر رہا ،حکومت میں آنے کا مقصد کیا ہے ذمہ داری کیا ہے وہ نہیں بتا سکتے ۔ انہوں نے کہا کہ بلاشک و شبہ میں اورمفتاح اسماعیل اس حق میں ہیں کہ نئے صوبے بنا دیں کیونکہ صوبوں کا نظام نہیں چل رہا ،ہمیں حساسیت کا احسا س ہے ،آپ نے کالا باغ ڈیم نہیں بنا یا آج تک بھگت رہے ہیں یہ بھی نہ بنائیں، کم از کم صوبائی اتھارٹی کو ضلع اور تحصیل تک لے کر جائیں آپ کا نظام چل جائے گا،یہ ممکن نہیں لاہور میں بیٹھا افسر مری میں سکول اور ہسپتال چلا سکے یہ ممکن نہیں ہے
پنجاب دنیا میں بیس ممالک جتنی آبادی رکھتا ہے ، ہم کر چکے ہیں یہ نہیں چلتا ، یہ 75سال سے نہیں چلا ،50سال آئین کو ہو گئے ہیں یہ نہیں چلا،یہ نظام کچھ نہیں کر سکتا یہ ذہن میں ڈال لیں ، نظام میں خرابیاں ہیں افسر کتنی محنت کر لے گا،حالت یہ ہے کہ آج ہم یہ شناخت کرتے ہیں فلاں افسر ایماندار ہے جبکہ پہلے ہم یہ کرتے تھے کہ فلاں ایماندار نہیں ہے ۔
انہوں نے کہاکہ 84ارب سے آٹے کی تقسیم ہوئی ہے لیکن میں معذرت سے کہوں گا اس میں سے 20ارب روپے کی چوری ہوئی ہے ،غریب کو کیا ملا ہے جس کے لئے آپ نے 84ارب روپے خرچ کیا ہے ، ہم اس نظام کے اندر ڈلیور نہیں کر سکے ،ہمیں اسے ری ریفارئن کرنا ہے نظام کو بدلنا ہوگا، یہ اتنا فرسودہ ہو چکا ہے کہ یہ ڈلیور نہیں کر سکتا چاہے یہ وفاق میں ہو یا صوبے کے اندر ہو ۔ انہوںنے کہا کہ جس نظام میں سیاستدان کے پاس بیورو کریسی کے پاس استعداد نہ ہو وہ کیسے چل سکتا ہے حالانکہ یہ سب قابل لوگ ہیں،کتنے سیکرٹریز ہیں جو نوکری چھوڑنا چاہتے ہیں کہ ہم اس نظام میں نہیں رہنا چاہتا
ہم کام نہیں کر سکتے ،جو نیب کی تلوار لٹکائی ہوئی ہے یہ ہمیں کام نہیں کرنے دے رہی ۔ نہ سیاسی نہ بیورو کریسی ڈلیور نہیں کرے گی تو نظام کیسے چلے گا،مداخلت الگ سے ہوتی ہے ۔ سپریم کورٹ کے جج افسروں کو بھلا کر کہتے ہیں چینی بیس روپے کلو کم دو ، کیا عدالت میں انصاف ملتا ہے ، میرے کیس میں نہ پراسیکیوشن نہ نیب آتی ہے نہ گواہ آتے ہیں یہ کونسا انصا ف کا نظام ہے ،یہ نظام کیا دیتا ہے ،لوگوں کی زندگیاں تباہ ہو گئی ہیں،نیب کے کیس میں آنے کے بعد لوگوں کی زندگی ختم ہو جاتی ہے
یہاں راستہ ڈھونڈا جاتا ہے کہ کام نہ ہو سکے، ملک کون چلائے گا فیصلے کون کرے گا، جہاںسب سے آسان فیصلہ کام نہ کرنا بن جائے وہ ملک نہیں چلتے ، ہم نے یہ سفر طے کیا ،75سالہ خرابیوں کی بناء پر یہاں تک پہنچے ہیں ، اگر ہم ان معاملات کو نہیں پہچانیں گے معاملہ درست نہیں ہوگا۔ عدلیہ کو دیکھ لیں ،ماضی میں دیکھ لیں کیا فیصلے ہوتے تھے ، میں ہتک نہیں کر رہا لیکن عدلیہ اپنے فیصلوں کا حوالہ نہیں دے سکتی
اس کا کام آئین کی تشریح ہے آپ آئین کو تبدیل نہیں کر سکتے ،آپ اس ادارے سے نہیں لڑ سکتے جو آپ کا خالق ہے ،آئین اسی پارلیمان نے بنایا ہے چاہے اچھی ہے یا بری ہے ۔ جو زندگی سپریم کورٹ کو دی ہے وہ اسی آئین نے دی ہے جو پارلیمان کا بنا یاہوا ہے ، آپ اس کے خلاف صف آراء نہیں ہو سکتے آپ مرضی کے فیصلے نہیں کر اسکتے ہیں ، وہ فیصلے نہیں دے سکتے جو آئین کے خلاف ہیں
آپ اس پارلیمان کے بنائے ہوئے اس قانون کو معطل نہیں کر سکتے جو ابھی نوٹیفائی ہی نہ ہوا ہو ،کون سی دنیا میں یہ چیزیں ہوتی ہیں۔ آپ ملک کے وزیر اعظم کو نا اہل کر کے چلتی ہوئی حکومت کو نہیںتوڑسکتے کہ اس نے اپنے بیٹے سے تنخواہ نہیں لی ، یہاں وزیر اعظم کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا اور جج نے مرنے سے پہلے کہا میں نے دبائو میں فیصلہ دیا پھر کون سا انصاف رہ گیا ہے ۔
ہم عدلیہ کی عزت کرنا چاہتے ہیں اس لئے عدلیہ کو اپنی ساکھ کو محفوظ رکھنا ہے ۔آج لوگ کھلم کھلا بات کرتے ہیں ججز کا نام لے کر بات کرتے ہیں،وہ نام لے کر بتا دیتے ہیں کیا فیصلہ آئے گا ، پھر کون سا انصاف کا نظام رہ گیا ہے ، ہم ماضی سے سبق حاصل کریں ، اسی لئے میں کہتا ہوں ایک ٹروتھ کمیشن بنا دیں کہ اس ملک میں ہوتا کیا رہا ہے ۔
سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ اس سال ہم 7500ارب ٹیکس لیں گے اس میں سے 4500ارب روپے صوبوں وکو دیدیں گے باقی 3ہزار وفاق کے پاس رہ جائے گا جبکہ وفاقی حکومت کا خرچہ ساڑھے 10ہزار روپے ہے ، جو ظاہر کرتا ہے کہ 7ہزار ارب روپے کا خسارہ ہوگا، تصور کریں اگلے سال ٹیکس کلیکشن ڈبل ہو جائے گی جو ممکن نہیں ہے
تصور کریں ایک روپے کا پیسہ خرچ نہیں بڑھے گااور یہ بھی ممکن نہیں ہے، 15ہزار ارب روپے میں سے 9ہزار روپے صوبوں کو دیدئیے پھر بھی وفاق خسارے میں رہے گا ،جب تک ہم اس طرز کے طویل المدت خسارے ختم نہیں کریں گے پاکستان بھنور سے نہیں نکل سکتا،ٹیکس سٹرکچر کو تین گنا کر لیں ہم پھر بھی اس بھنور سے نہیں نکل سکتے، ہم ٹیکس ٹو جی ڈی پی اورایکسپورٹ ٹو جی ڈی پی 15فیصد نہیں کریں گے ہم مسائل سے نہیں نکلیں گے، ہم نے ہر سال دنیا کو 25ارب ڈالر دینے ہیں اور اس نے ہی ہمیں گردن سے جھکڑ لیا ہے
ہر سال ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کی کوشش ہو گی ، میں جب وزیر خزانہ تھا کوشش تو یہ ہونی چاہیے تھی کہ مہنگائی کم اور گروتھ بڑھے لیکن یہی کوشش تھی کہ ڈیفالٹ کوروکو اور آئندہ بھی یہی کشمکش ہوگی ،ہم ایک اور آئی ایم ایف پروگرام میں جائیں گے،مجھے نہیں لگتا ہم اس کشمکش سے نکل سکیں گے جب تک اصلاحات کا سٹرکچر نہیں دیا جاتا ۔ہم نے 55سے60ہزار ارب عوام پر لگایا ہے مگر مہنگائی ہے
ملک میں پیدوار نہیں بڑھی ، ملک کے اندر گورننس ابتر ہے ، بیس سال ہماری آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے لیکن اس کے لئے کوئی منصوبہ بندی نہیں ۔جب بنگلہ دیش ہم سے الگ ہوا تو اس کی پاپولیشن55فیصد تھی اور ہماری 50فیصد تھی آج وہ 16کروڑ اور ہم 23کروڑ پر کھڑے ہیں ، حکومت پاپولیشن کے محکمے پر پیسے بھی خرچ کرتی ہے لیکن نتائج نہیں،30ارب ڈالر کی ایکسپورٹ کچھ نہیں ہے
آج کوئی پاکستان میں آنے کے لئے تیار نہیں ہے، پاکستانی ہوٹلوں میں غیر ملکی سرمایہ کار نظر نہیں آئے گا، جتنے غیر ملکی ائیر لائنز ڈھاکہ ائیر پورٹ پر آتی ہیں وہ ہمارے سارے ملک کے ائیر پورٹس پر بھی نہیں آتیں، کسی غیر ملکی نے بات کرنی ہے وہ پاکستان نہیں آتے وہ کہتے ہیں دبئی بنکا ک آ جائو ہم پاکستان نہیں آئیں گے،یہاں غیر ملکی ایک ڈالر نہیں آتا جو ایکسپورٹ کے لئے ہوالبتہ پاکستان کو مصنوعات بیچنی ہوں تو یہاں فیکٹریاں لگ جاتی ہیں
غیر ملکی سرمایہ کاری ویتنام میں ایکسپورٹ کر لئے سرمایہ کاری کرتے ہیں ، ویتنام میں صرف سام سنگ موبائل کی ایکسپورٹ 68ارب ڈالر کا ہے ، پاکستان اور ویتنام کی ایکسپورٹ 1992ء میں برابر تھی آج ان کی 300ارب ڈالر ہے جبکہ ہماری 30ارب ڈالر ہے ، ہم 1999ء میں .18فیصد دنیا کا ایکسپورٹ کرتے تھے آج دنیا کا .12فیصد کر رہے ہیں،2002فیصد 16.6ایکسپورٹ تھی آج 8.8فیصد کیا ہے ، ہم غیر ملکی سرمایہ کاری نہیں لا سکتے،غیر ملکی سرمایہ کار ویتنام کمبوڈیا بنگلہ دیش چلا جاتا ہے یہاں نہیں آتا۔
مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ ہم گورننس میں بھارت اور بنگلادیش سے بھی پیچھے ہیں، اب دنیا آپ کو پیسے دینے کے لیے تیار نہیں،انہوں نے کہا کہ پاکستان میں گورننس کا نظام ناقص اور فرسودہ ہو چکا ہے، پاکستانی حکومت کو 6 ہزار ارب روپے سود میں دینا ہے۔ہم ایک سے قرضہ لے کر دوسرے کو دیتے ہیں، نظام کی تبدیلی کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے ہائر ایجوکیشن کو تباہ کر دیا ہے
کوشش کر رہے ہیں گردشی قرضہ کم ہو جائے، ہر بدلتی حکومت کے ساتھ گردشی قرضہ بڑھتا جا رہا ہے۔پی آئی اے کو ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، پی آئی اے نے 20 برسوں میں پیسے نہیں کمائے، اس سال پی آئی اے کو 90 ارب روپے کا نقصان ہوا، ہم پی آئی اے کو ٹھیک کر سکے اور نہ ہی نجکاری کرسکے۔حکومت کو اپنی رٹ قائم کرنی ہوگی، حکومت کو مہنگائی کا سدباب کرنے کے لیے فوری طور پر کچھ کرنا ہوگا۔