دوشنبے(نیوزڈیسک)روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے شام کے صدر کی امداد جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کاملک دہشت گردوں کی جارحیت کے مقابلے پر صدر بشار الاسد کی حکومت کی مدد جاری رکھے گا، اگر روس شام کی مدد کو نہ آتا تو وہاں کی صورتِ حال اس سے زیادہ گھمبیر ہوتی اور پناہ کی تلاش میں شام سے باہر جانے والے مہاجرین کی تعداد بھی کئی گنا زیادہ ہوتی۔ تاجکستان میں ایک علاقائی سکیورٹی کانفرنس کے سربراہی اجلاس سے خطاب کے دوران روسی صدر نے کہا صدر بشار الاسد شام کی “حقیقی” حزبِ اختلاف کے ساتھ مل کر تنازع کا پرامن حل تلاش کرنے پر تیار ہیں۔انہوں نے کہا کہ شام کے تنازع میں عالمی طاقتوں اور مقامی فریقین کی پہلی ترجیح وہاں جاری “دہشت گردی” کا مقابلہ اور خاتمہ ہونی چاہیے۔شام میں صدر بشار الاسد کے خلاف سرگرم معتدل مزاج باغی گروہوں کو مغربی ملکوں کی مدد اور اعانت حاصل ہے لیکن اسد حکومت ان گروہوں کودہشت گرد قرار دیتی آئی ہے۔روس شامی حکومت کا ایران کے بعد بین الاقوامی برادری میں دوسرا بڑا اور سرگرم اتحادی ہے جو اسد حکومت کے خلاف اقوامِ متحدہ میں پیش کی جانے والی سلامتی کونسل کی کئی قراردادوں کو ویٹو کرچکا ہے اور شامی حکومت کے خلاف کسی سخت بین الاقوامی کارروائی کی راہ میں بھی حائل رہا ہے۔اپنے خطاب میں روسی صدر نے ناقدین کی اس رائے کو بھی سختی سے مسترد کیا کہ شام میں روسی مداخلت کے سبب شام کی خانہ جنگی پیچیدہ رخ اختیار کرگئی ہے جس کے باعث پڑوسی ملکوں میں شامی مہاجرین کی آمد میں اضافہ ہوا ہے۔صدر پیوٹن نے دعویٰ کیا کہ اگر روس شام کی مدد کو نہ آتا تو وہاں کی صورتِ حال اس سے زیادہ گھمبیر ہوتی اور پناہ کی تلاش میں شام سے باہر جانے والے مہاجرین کی تعداد بھی کئی گنا زیادہ ہوتی۔صدر پیوٹن کے اس بیان سے ایک روز قبل ہی امریکی محکمہ دفاع نے شام میں روس کی فوجی موجودگی میں اضافے کی اطلاعات کی تصدیق کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ روس شام میں ایک نیا فوجی ہوائی اڈہ تعمیر کر رہا ہے۔پینٹاگون کے ایک ترجمان کیپٹن جیف ڈیوس نے پیر کو صحافیوں کو بتایا تھا کہ شام کے ساحلی شہر لتاکیہ میں روس کی فوجی گاڑیوں اور دیگر بھاری ساز و سامان کی نقل و حرکت سے ظاہر ہورہا ہے کہ روسی فوج علاقے میں کوئی نیا اڈہ تعمیر کر رہی ہے۔اس سے قبل مغربی ذرائع ابلاغ نے پیر کو امریکی حکام کے حوالے سے کہا تھاکہ روس نے لتاکیہ کے نزدیک قائم شامی فضائیہ کے ایک اڈے پر بھاری توپ خانہ اور کم از کم سات ٹی-90 ٹینک پہنچائے ہیں۔گزشتہ ہفتے ‘پینٹاگون’ نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ روس نے اپنی بحری فوج کے 200 اہلکاروں کے ہمراہ بھاری اسلحہ اور سازو سامان شام منتقل کیا ہے۔’پینٹاگون’ کے مطابق شام بھیجے جانے والے سامان میں 1500 اہلکاروں کی عارضی رہائش گاہیں، توپ خانہ، کم فاصلے تک مار کرنے والے گائیڈڈ میزائل اور ان کے کنٹرولر اور لگ بھگ ایک درجن بکتر بند گاڑیاں شامل تھیں۔پینٹاگون اور مغربی ذرائع ابلاغ کے ان بیانات اور دعووں کے بعد روس میں تعینات شامی سفیر ریاض حداد نے شام میں روسی فوجی دستوں کی موجودگی کے دعووں کو “جھوٹ” قرار دیا تھا۔پیر کوماسکو میں صحافیوں سے گفتگو کرتےہوئے شامی سفیر نے کہا تھا کہ ان کے ملک کی حکومت اور روس کے درمیان کئی شعبوں میں گزشتہ 30، 40 برسوں سے قریبی تعاون جاری ہے اور دمشق حکومت پہلے بھی روس سے ہتھیار، فوجی آلات اور دیگر ساز و سامان خریدتی رہی ہے۔اتوار کو ایک روسی ٹی وی پر نشر ہونے والے انٹرویو میں روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف نے بھی واضح کیا تھا کہ ان کی حکومت ماضی میں شام کو ہتھیار فراہم کرتی رہی ہے اور آئندہ بھی کرتی رہی گی۔سرگئی لاوروف نے کہا تھا کہ ہتھیاروں کی ہر کھیپ کے ہمراہ روسی ماہرین بھی شام جاتے ہیں جو وہاں ان ہتھیاروں اور آلات کی صحیح دیکھ بھال اور شامی اہلکاروں کو ان کے استعمال کی تربیت دینے کی ذمہ داریاں انجام دیتے ہیں۔گزشتہ ہفتے امریکہ کے صدر براک اوباما نے بھی شام میں روس کی فوجی موجودگی کی اطلاعات پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے نتیجے میں شام میں گزشتہ ساڑھے چار برسوں سے جاری خانہ جنگی کا حل تلاش کرنے کی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی کوششیں ناکام ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔