اسلام آباد (این این آئی)قانونی ماہرین نے کہا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تنخواہ اور مراعات کی تفصیلات کو معلومات تک رسائی کے قانون سے استثنیٰ ہونے کی بنیاد پر خفیہ نہیں رکھا جاسکتا۔ وزارتِ قانون کے حکام کے مطابق سپریم کورٹ کا ہر جج تقریباً 17 لاکھ روپے تنخواہ اور مراعات پاتا ہے اور کوئی ٹیکس نہیں دیتا۔نجی ٹی وی کے مطابق رابطہ کرنے پر سپریم کورٹ کے اسسٹنٹ رجسٹرا ر
خرم شہزاد نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ دیگر سرکاری اداروں کی طرح کوئی پبلک آفس نہیں ہے، اس لیے ججوں کی تنخواہ اور مراعات کی تفصیل معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت فراہم نہیں کی جاسکتیں۔ خرم شہزاد کے مطابق معلومات تک رسائی کے قانون میں پبلک آفس کی واضح تشریح موجود ہے اور سپریم کورٹ اس پر پورا نہیں اترتا البتہ قانونی ماہرین اسسٹنٹ رجسٹرار سپریم کورٹ کی اس رائے سے اتفاق نہیں رکھتے ۔ ممتاز قانون دان اور ہیومن رائٹس واچ ایشیا کے رکن سروپ اعجاز نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو تنخواہ عوام کے پیسوں سے دی جاتی ہیں اس لیے اسے خفیہ رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ممتاز وکیل صلاح الدین احمد نے بتایا کہ اسسٹنٹ رجسٹرار کی یہ بات تو درست ہے کہ سپریم کورٹ دیگر سرکاری اداروں جیسی پبلک باڈی نہیں ہے مگر یہ جواز ججوں کی تنخواہ اور مراعات کو پبلک نہ کرنے کیلئے درست نہیں ہے، آئین کے آرٹیکل 19 اے کے تحت عوام یہ معلومات جاننے کا مکمل حق رکھتے ہیں اور یہ معلومات فراہم نہ کرنے کے حق میں کوئی قانون موجود نہیں ہے اور اگر ایسا کوئی قانون بنایا گیا تو یہ آرٹیکل 19 اے کے خلاف ہوگا۔
وزارت قانون کے حکام نے بتایا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی تنخواہ 10 لاکھ 24 ہزار اور دیگر ججوں کی تنخواہ 9 لاکھ 67 ہزار ہے، چیف جسٹس سمیت سپریم کورٹ کے تمام ججوں کو 4 لاکھ 28 ہزار ماہانہ سپیریئر جوڈیشل الاؤنس تنخواہ کے علاوہ دیا جاتا ہے، چیف جسٹس کو 2400 سی سی اور دیگر ججوں کو 1800 سی سی کی سرکاری گاڑیاں ملتی ہیں، تمام ججوں کو 600 لیٹر پیٹرول اور شوفر بھی سرکار کی طرف سے ملتا ہے۔ 68 ہزار ہاؤس رینٹ ،69 ہزار میڈیکل الاؤنس بھی ملتا ہے اور 1997 کے صدارتی حکم نامے کے تحت تنخواہ اورتمام دیگر الاؤنسز پر کوئی ٹیکس بھی نہیں کٹتا ہے جب کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ہر جج کو تقریباً 10 لاکھ روپے پینشن کے ساتھ مفت بجلی اور پیٹرول بھی ملتا ہے۔