لندن(نیوزڈیسک)یورپی یونین کے وزراءدیئے گئے کوٹے کے تحت ایک لاکھ 20 لاکھ سے زائد تارکینِ وطن کی آباد کاری کے لیے ایک مشترکہ منصوبے پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔یورپی یونین کے اکثریتی وزارئے داخلہ نے برسلز میں ہنگامی مذاکرات میں پناہ کی تلاش میں آنے والوں کے لیے ایک منصوبہ مرتب کرنے کے حوالے سے بنیادی اصولوں پر اتفاقِ رائے کیا تاہم مزید مذاکرات آئندہ ماہ کیے جائیں گے۔ادھر تارکینِ وطن کے بڑی تعداد سے نمٹنے کے لیے آسٹریا، سلوواکیا اور نیدرلینڈز نے بھی اپنی سرحدوں پر پابندیوں کو سخت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ان ممالک کی طرف سے یہ فیصلہ، جرمنی کے اس اعلان کے کچھ گھنٹوں بعد سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ جرمنی آسٹریا کے ساتھ اپنی سرحد پر نگرانی کا عمل بڑھا رہا ہے۔ہنگری نے بھی سربیا کے ساتھ اپنی سرحد پر باڑ لگانے کا کام مکمل کر لیا ہے اور اس ریلوے لائن کو بند کر دیا ہے جسے تارکینِ وطن آر پار جانے کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ہنگری کی جانب سے نئے اقدامات کے تحت غیر قانونی تارکینِ وطن اور سرحد پر موجود باڑ کو عبور کرنے کی کوشش کرنے والوں کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ یورپ کے شمالی حصے میں سرحدوں پر نگرانی سخت کرنے سے یورپی باشندوں کے آزادانہ طور پر ایک دوسرے کے ملک میں آنے جانے کے معاہدے کو چلیجنز درپیش ہوگئے ہیں۔ہنگری کے وزیرِ اعظم نے ’ٹی وی ٹو‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سرحدی علاقوں میں ہنگامی حالت نافذ ’کیے جانے کا امکان ہے۔ لکسمبرگ میں یورپی یونین کے صدر دفتر سے جاری بیان میں اس امید کا اظہار کیا گیا ہے کہ گذشتہ ہفتے تارکینِ وطن کی آباد کاری کے لیے یورپی کمیشن کے چیف کی جانب سے دی جانے والی تجاویز آٹھ اکتوبر کے اجلاس میں قانون کی شکل اختیار کر لیں گی۔سلوواکیا کے وزیرِ داخلہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ کوٹہ سسٹم مسئلے کا حل نہیں ہے۔لکسمبرگ کے وزیرِ خارجہ جین ایزل بورن نے کہا کہ ’اس وقت تمام لوگ آن بورڈ نہیں ہیں۔انھوں نے خبردار کیا ہے کہ یورپ میں صورتحال بہت ہنگامہ خیز اور ڈرامائی ہے اور فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔یورپی کمیشن کی جانب سے موسم سرما سے قبل تارکینِ وطن کی آباد کاری کی تجویز دی گئی تھی جبکہ وزراءنے یونان سے اٹلی اور دیگر یورپی ممالک میں 40 ہزار تارکینِ وطن کی منتقلی اور آباد کاری پر رضامندی دی ہے۔ ہنگری کی جانب سے نئے اقدامات کے تحت غیر قانونی تارکینِ وطن اور سرحد پر موجود باڑ کو عبور کرنے کی کوشش کرنے والوں کو گرفتار کر لیا جائے گا۔اگرچہ یہ اقدامات ہنگامی صورتِ حال میں کیے گئے ہیں اورعارضی نوعیت کے ہیں تاہم یورپ کے شمالی حصے میں سرحدوں پر نگرانی سخت کرنے سے یورپی باشندوں کے آزادانہ طور پر ایک دوسرے کے ملک میں آنے جانے کے معاہدے کو چیلنجز درپیش ہوگئے ہیں۔یورپی ممالک تارکینِ وطن کے بہت زیادہ تعداد میں آنے سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کا بمشکل مقابلہ کر پا رہے ہیں جبکہ زیادہ تر تارکینِ وطن جرمنی جانا چاہتے ہیں۔آسٹریا کی پولیس کا کہنا ہے کہ پیر کو ہنگری سے 7000 تک تارکینِ وطن پہنچے ہیں جبکہ اتوار کو یہ تعداد 14 ہزار تھی۔آسٹریا کے چانسلر کا کہنا تھا کہ مختلف مقامات پر فوج لگائی جا رہی ہے جس کا بنیادی مقصد تارکینِ وطن کو انسانی امداد بہم پہنچانا ہے۔ لیکن ضروری ہوا تو فوج کو سرحدوں پر بھی بھیجا جائے گا۔