اسلام آباد (این این آئی)قومی اسمبلی نے سپریم کورٹ کے 8 رکنے بینچ کے حکم نامے کیخلاف مذمتی قرارداد منظور کرتے ہوئے بینچ کے حکم نامے کو مسترد کردیا اور کہاہے کہ سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ کا حکم نامہ آئین اور قانون سے متصادم ہے،8 رکنی بینچ کا عدالتی اصلاحات بل پر عملدرآمد روکنے سے متعلق حکم نامہ پارلیمنٹ کے
معاملات میں مداخلت ہے، 8 رکنی بینچ کا حکم نامہ عدالتی تاریخ میں ایک اور سیاہ باب کا اضافہ ہے،کوئی ادارہ پارلیمنٹ کے اس اختیار کو چھین نہیں سکتا اور نہ ہی معطل یا منسوخ کرسکتا ہے۔ جمعہ کو قومی اسمبلی اجلاس میں علی موسیٰ گیلانی نے قرارداد پیش کی۔قرار داد میں کہاگیاکہ یہ ایوان پارلیمان کے قانون سازی کا مسلمہ دستوری اختیار سلب کرنے کی سپریم کورٹ کی جارحانہ کوشش کو سختی سے مسترد کرتا ہے۔ قرارداد میں کہاگیاکہ دوٹوک انداز میں ایوان میں واضح کرتا ہے کہ یہ اختیار سلب کیاجاسکتا اور نہ ہی اس میں مداخلت کی جاسکتی ہے۔ قرار دا دمیں کہاگیاکہ ایوان افسوس کا اظہار کرتاہے کہ 1973 کے آئین کے نفاذ کے 50 سال مکمل ہونے پر گولڈن جوبلی تقریبات کے دوران ریاست کے ایک عضو (Organ of the State)نے آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جو خود آئین کے اندر ایک ناپسندیدہ فعل ہے۔ قرارداد میں کہاگیاکہ آئین میں ریاست کے اختیارات تین اداروں مقننہ (Legislature)، انتظامیہ (Executive) اور عدلیہ (Judiciary)میں منقسم ہیں۔قرارداد میں کہاگیاکہ کوئی ادارہ دوسرے کے امور میں مداخلت کا مجاز نہیں ہے۔قرارداد میں کہاگیاکہ یہ ایوان واضح کرتا ہے کہ بجٹ، مالیاتی بل، اقتصادی معاملات اور وسائل کے اجرا سے متعلق منظوری دینے یا نہ دینے کا تمام تر اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہے جیسا کہ آئین میں درج ہے۔ قرارداد کے مطابق کوئی ادارہ پارلیمنٹ کے اس اختیار کو چھین نہیں سکتا اور نہ ہی معطل یا منسوخ کرسکتا ہے۔
قرار داد میں کہاگیاکہ ایسا کرنا آئین پاکستان کے بنیادی تصور کی خلاف ورزی اور دستور کی عمارت ڈھانے کے مترادف ہے۔ قرار داد میں کہاگیاکہ یہ ایوان شدید تشویش کا اظہار کرتا ہے کہ پارلیمنٹ کے منظور کردہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل مجریہ 2023 کو وجود میں آنے، آئینی وقانونی عمل کے نتیجے میں تکمیل پانے اور نافذ العمل ہونے سے پہلے ہی ایک متنازعہ ویک طرفہ آٹھ رکنی بینچ میں زیرسماعت لاکر پاکستان کی تاریخ میں ایک سیاہ ورق کا اضافہ کیاگیا ہے۔
قرارداد میں کہاگیاکہ یہ خلاف آئین وقانون روایت نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ منطق اور عدالتی طریقہ کار کے بھی سراسر برعکس ہے۔ قرارداد میں کہاگیاکہ یہ عمل بذات خود بلاجواز عجلت کا ثبوت ہے لہذا اسے آئین، قانون اور انصاف کے مروجہ طریقہ کار کے مطابق جائز حکم یا فیصلہ تسلیم نہیں کیاجاسکتا، لہٰذا اسے مسترد کرتا ہے۔ قرار داد میں کہاگیاکہ ایوان وفاقی حکومت کو ہدایت کرتا ہے کہ اس سنگین آئینی خلاف ورزی کا بغور جائزہ لے کر اس کی درستگی کے لئے آئین اور قانون کے مطابق اقدامات کرے۔
ایک اور قرارداد میں کہاگیاکہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے عدالتی روایات سے ماورااور خلاف قانون وضابطہ نئے ڈیمز اور آبی ذخائر کی تعمیر کے لئے فنڈز جمع کرنے کاآغاز کیا تھا اور مورخہ 10 جولائی 2018 کو”سپریم کورٹ آف پاکستان کا دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیمز فنڈ“ قائم ہوا تھا۔ اخبار کی خبر کے مطابق جنوری 2023 میں چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ کو آگاہ کیاگیا تھا کہ ڈیم فنڈ میں 16.53 ارب روپے موجود ہیں جو اگلی سہہ ماہی میں بڑھ کر 16.98 ارب روپے ہوجائیں گے۔ یہ ایوان مطالبہ کرتا ہے کہ ڈیم فنڈ میں جمع ہونے والی یہ رقم قومی خزانے میں جمع کرائی جائے اور یہ وسائل 2022 کے تباہ کن سیلاب کے متاثرین کی مدداور بحالی کے لئے بروئے کار لائے جائیں۔